1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ايک ارب بھارتی شہريوں کی ’پرائيویسی‘ کیسے متاثر ہو سکتی ہے؟

عاصم سليم16 مارچ 2016

بھارتی پارليمان ايک ايسا نيا قانون منظور کرنے والی ہے، جس کے تحت قومی سلامتی سے متعلق معاملات کی تحقيقات کے ليے وفاقی ايجنسيوں کو دنيا کے سب سے بڑے بائيو ميٹرک ڈيٹابيس تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔

https://p.dw.com/p/1IE5h
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee

نئی دہلی حکومت نے آدھار نامی اس قانون کو پارليمان کے ايون بالاں ميں آج بروز بدھ پيش کيا۔ بھارت ميں اس متنازعہ قانون کے حوالے سے يہ پيش رفت ايک ايسے موقع پر ہو رہی ہے جب حکمران جماعت بھارتيہ جنتا پارٹی (BJP) طلبا کی جانب سے کيے جانے والے حاليہ مظاہروں کے خلاف کارروائيوں ميں مصروف ہے اور رياستی اليکشن ميں قوم پرست ايجنڈے کے تعاقب ميں ہے۔

’آدھار ڈيٹا بيس اسکيم‘ کا آغاز سات برس قبل مراعات کی تقسيم کے نظام کو بہتر بنانے اور اس عمل ميں بد عنوانی کے عنصر کو کم کرنے کے مقصد سے کيا گيا تھا۔ اسکيم کے تحت تقريباً ايک بلين افراد اپنے دستخط اور انگوٹھوں کے نشان جمع کرا چکے ہيں۔ اب بی جے پی حکومت اس اسکيم ميں چند تراميم متعارف کراتے ہوئے اور چند قانونی پيچيدگيوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے ديگر مقاصد کے ليے بھی استعمال کرنا چاہتی ہے۔

بھارت کی مشرقی رياست اڑيسہ سے تعلق رکھنے والے قانون ساز Tathagata Satpathy سوال اٹھاتے ہيں، ’’کيا حکومت يہ يقين دہانی کرا سکتی ہے کہ آدھار کارڈ اور اس کے ذريعے حاصل ہونے والی ذاتی معلومات کو اسی طرز پر استعمال نہيں کيا جائے گا جيسا کہ امريکا ميں نيشنل سکيورٹی ايجنسی نے کيا؟‘‘

بھارتی طلبا کے ايک حاليہ مظاہرے کا ايک منظر
بھارتی طلبا کے ايک حاليہ مظاہرے کا ايک منظرتصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Topgyal

دوسری جانب وزير خزانہ ارون جيٹلی نے اس مجوزہ قانون سازی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ آدھار اسکيم کی بدولت حکومت سن 2014ء اور سن 2015ء کے مالی سال کے دوران تقريباً ڈيڑھ بلين روپے بچانے ميں کامياب رہی۔ وزارت خزانہ کے ايک ترجمان نے مزيد کہا ہے کہ حکومت نے عوام کی ’پرائيویسی‘ کے احترام کو يقينی بنانے کے ليے انتظامات کر رکھے ہيں اور ذاتی معلومات تک رسائی کا اختيار انتہائی مخصوص کيسوں ميں ہی زير استعمال آئے گا۔

ايک اور سرکاری اہلکار نے بھی اس مجوزہ قانون کے دفاع ميں کہا کہ يہ مجوزہ قانون چند معاملات ميں دہائيوں سے چلے آ رہے انڈين ٹيلی گراف ايکٹ سے بھی زيادہ محدود ہے، جو قومی سلامتی سے متعلق ايجنسيوں اور ٹيکس اتھارٹيوں کو يہ اختيار ديتا ہے کہ وہ عوامی سلامتی کو يقينی بنانے کے ليے ٹيلی فون کاليں ريکارڈ کر سکتی ہيں۔

اس کے برعکس بھارت ميں اس قانون کے سياسی مخالفين اور اقليتيں بظاہر ان حکومتی يقين دہانيوں سے زيادہ مطمئن نہيں ہیں۔ بھارت ميں مسلمان اقليت کا بھی ايسا ماننا ہے کہ اس ڈيٹا بيس کو انہيں ’خاموش‘ کرانے کے ليے استعمال کيا جا سکتا ہے۔ ڈيجيٹل رائٹس کی ايک بين الاقوامی تنظيم ’ايکسیس‘ ميں گلوبل پاليسی ڈائريکٹر رمن جيت سنگھ چيمہ کے مطابق مجوزہ بھارتی قانون يورپ اور امريکا ميں اسی طرز کے قوانين کی طرح شفاف نہيں ہے۔