1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اُستاد امجد علی خان جرمنی میں

27 مارچ 2008

بھارت کے مایہ ناز موسیقار اور سرود نواز اُستاد امجد علی خان نے حال ہی میں جرمن شہر کولون میں ایک یادگار کنسرٹ میں اپنے دونوں بیٹوں اَمان علی خان اور آیان علی خان کے ہمراہ فن کا مظاہرہ کیا۔ اپنے تقریباً چالیس برسوں پر پھیلے ہوئے کیرئر میں امجد علی خان کلاسیکی موسیقی کے لئے اپنی خدمات کے بدلے میں اب تک بے شمار اہم اعزازات حاصل کر چکے ہیں، جن میں یونیسکو ایوارڈ، بھارت کا دوسرا اعلیٰ ترین شہری اعزاز پدم وِبھوشن اور و

https://p.dw.com/p/DYOZ
اُستاد امجد علی خان ( دائیں) بھارت سرکار کی جانب سے جاری کی جانے والی اپنی لائف ٹائم البم ”بائیوگرافی“ کے ساتھ
اُستاد امجد علی خان ( دائیں) بھارت سرکار کی جانب سے جاری کی جانے والی اپنی لائف ٹائم البم ”بائیوگرافی“ کے ساتھتصویر: AP

�لڈ اکنامک فورم کا کرسٹل ایوارڈ بھی شامل ہیں۔

جرمنی کے اِس دَورے کے موقع پر اُستاد امجد علی خان نے اپنے ایک انٹرویو میں جنوبی ایشیا میں کلاسیکی موسیقی کی ترویج و ترقی سے لے کر اپنے بیٹوں کی تعلیم و تربیت تک مختلف موضوعات پر اظہارِ خیال بھی کیا۔ اُن کے بڑے بیٹے اَمان علی خان 1977ء میں اور چھوٹے آیان علی خان 1979ء میں پیدا ہوئے۔ اُنہیں اپنے بیٹوں پر ناز ہے کہ وہ آج کل کی باقی نوجوان نسل کے برعکس روایات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اپنے اِن بیٹوں کے ہمراہ اُستاد امجد علی خان دُنیا کے مختلف خطوں اور تقریباً سبھی اہم ترین کنسرٹ ہالز میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔

اُستاد امجد علی خان نے کئی ایک راگ خود بھی تخلیق کئے ہیں۔ یہ راگ تب تشکیل پاتے ہیں، جب فنکار بہت زیادہ خوشی یا پھر بہت زیادہ غم محسوس کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک راگ اُنہوں نے ایک حادثے میں معروف موسیقار اُستاد امیر حسین خان کے انتقال پر بھی تخلیق کیا۔ اُستاد امجد علی خان اپنے فن کے ذریعے لوگوں کو محبت کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔

بنگش گھرانے کا پس منظر
سترہویں صدی کے وَسط میں گھوڑوں کے ایک تاجر اور موسیقار محمد ہاشمی خان بنگش اپنے ساتھ افغان ساز رباب لئے سرزمینِ ہندوستان پر وارِد ہوئے اور رے وا (مدھیہ پردیش) کے راجہ کے دربار سے بہ طور موسیقار وابستہ ہو گئے۔ بعد ازاں اُنہی کے بنگش گھرانے کے موسیقاروں نے آنے والے عشروں اور صدیوں میں رباب کو بتدریج 25 دھاتی تاروں سے سجے خوبصورت ساز سرود کی شکل دے دی، جو آج کل جنوبی ایشیائی کلاسیکی موسیقی کے اہم ترین سازوں میں شمار ہوتا ہے۔ اُستاد امجد علی خان اِسی بنگش گھرانے کے چشم چراغ ہیں۔

1945ء میں گوالیار کے ایک موسیقار گھرانے میں آنکھ کھولنے والے امجد علی خان نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد حافظ علی خان سے حاصل کی، جو گوالیار کے دربار سے وابستہ تھے۔ امجد علی خان چھ برس کے تھے، جب اُنہوں نے پہلی مرتبہ باقاعدہ ایک محفل میں سرود بجایا۔ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی تاریخ میں یہ ایک شاندار باب کا آغاز تھا۔ آج اُستاد امجد علی خان بھارت میں کلاسیکی موسیقی کے اہم ترین فنکاروں میں سے ایک ہیں۔ جہاں دیگر فنکار انگلیوں کی پورورں سے سرود کے تار بجاتے ہیں، وہاں اُستاد امجد علی خان کی سرود نوازی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ تاروں کو چھیڑنے کے لئے بائیں ہاتھ کے ناخن استعمال کرتے ہیں۔ اُن کی فنی مہارت کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ گیتوں کی بنیاد پر اپنی دھنیں تیار کرتے ہیں۔ وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں تو انتہائی پیچیدہ راگ بھی ہلکے پھلکے انداز میں سرود سے برآمد ہونے لگتے ہیں۔

سات نسلوں سے اِس فن سے منسلک اُستاد امجد علی خان نے یہ فن اپنے دونوں بیٹوں اَمان علی خان اور آیان علی خان کو بھی منتقل کیا ہے۔ 15 مارچ کو کولون شہر کے فلہارمنی ہال میں اِن تینوں باپ بیٹوں نے ایک یادگار کنسرٹ میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اِس کنسرٹ کو دیکھنے کے لئے نہ صرف جرمن بلکہ بہت سے جنوبی ایشیائی شائقین بھی بڑی تعداد میں وہاں آئے ہوئے تھے۔

یکے بعد دیگرے استاد امجد علی خان پہلے مختلف دھنوں، راگوں اور گیتوں کا تعارف کرواتے چلے گئے اور پھر اپنے ساتھی فنکاروں کے ہمراہ اِنہیں شائقین کے سامنے پیش کرتے چلے گئے۔ تین گھنٹوں تک جاری رہنے والے اِس یادگار کنسرٹ کے بعد کولون کا فلہارمنی ہال دیر تک شائقین کی تالیوں سے گونجتا رہا۔