1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اٹلی کے عام انتخابات میں Berlusconi کی فتح

15 اپریل 2008

اٹلی میں منعقدہ پارلیمانی انتخابات سابق وزیر اعظم سلوِیو بَیرلُسکونی کے دائیں بازو کے اعتدال پسند اتحاد نے جیت لئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے شعبے سے وابستہ یہ ارب پتی شخصیت تیسری مرتبہ اٹلی میں سربراہِ حکومت کا عہدہ سنبھالے گی۔ اب تک کے تجربات نے تو یہی ظاہر کیا کہ بَیرلُسکونی اختیارات کو محض اپنے مفادات کےلئے استعمال کرتے رہے۔ کیا اِس بار معاملہ مختلف ہو گا؟ ڈوئچے ویلے کے Jörg Seisselbergکا لکھا تبصرہ

https://p.dw.com/p/DlOt
اٹلی میں منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں سابق وزیر اعظم سلوِیو بَیرلُسکونی کی فتح
اٹلی میں منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں سابق وزیر اعظم سلوِیو بَیرلُسکونی کی فتحتصویر: AP

مسند اقتدار پر بیرلسکونی کی واپسی پر اگر کوئی حیران ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ اس ارب پتی کی شاندار انتخابی کامیابی مطقی اور قابل فہم ہے۔ وزیر اعظم رومانو پروڈی کی اب تک کی حکومت اطالوی عوام کی نظر میں ایک ناکام حکومت ہے۔ بائیں بازو کی اِس اعتدال پسند حکومت نے اپنے دو سالہ دَور میں حکمرانی کم اور لڑائی زیادہ کی اور اُس کی ناکامیوں میں سرفہرست نیپلز میں کوڑے کرکٹ کا بحران تھا۔ اس اور دیگر بحرانوں کی سزا عوام نے پروڈی حکومت کو اپنے ووٹ کے ذریعے دی اور ٹھیک یہی جمہوریت کا چلن ہوتا ہے۔

اگر عوام یہی صورتحال جاری رہنے کے حق میں ووٹ دیتے تب یہ شک پیدا ہوتا کہ آیا اٹلی میں جمہوری حسیات ابھی بھی کام کر رہی ہے یا نہیں؟ اطالوی ووٹروں کا تمام چھوٹی سیاسی جماعتوں کو دھتکار دینے کا فیصلہ بھی نہایت معقول ہے۔ پارلیمان میں سیاسی جماعتوں کے لڑائی جھگڑے کا خاتمہ اطالوی عوام کے لئے فائدہ مند ہے اور امید ہے کہ یہ ایک نئے دَور کا آغاز بھی ہو گا کیونکہ اس سے افراتفری کم ہو گی اور ایک معقول پالیسی کی گنجائش پیدا ہو گی۔

خلاف توقع اور عمومی خدشات کے برعکس اطالوی عوام نے ملکی سیاست سے بیزاری اور لاتعلقی کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی انتخابات کے بائیکاٹ کی کسی اپیل پر کان دھرا۔80 فیصد سے زاید ووٹروں نے ووٹ کے ذریعے اپنی رائے دی اور یہی اصل جمہوریت ہے۔ اور یہ ووٹروں کی ایسی تعداد ہے، جس پر جرمن عوام رشک کر سکتے ہیں۔

کاسمیٹک سرجری اور نئے بال لگوانے کے بعد منظر عام پر آنے والے بیرلسکونی صرف بے تکے ہی نہیں بلکہ سیاسی طور پر ناقابل اعتبار حتیٰ کہ بعض حالات میں خطرناک بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ کیا وزارتِ عظمےٰ کے اُن کے تیسرے دَور میں سب کچھ پہلے سے بہتر ہو گا؟ ابھی تک ملنے والے تمام اشارے اِس کی تائید نہیں کرتے۔ تاہم پارلیمان میں بیرلسکونی کو اب واضح اکثریت حاصل ہے اور یہ واضح اکثریت اُن پر اصلاحات بالآخر شروع کر دینے کی ذمہ داری عاید کرتی ہے اور یہ بھی کہ وہ اب اپنے مفادات کو مزید فوقیت نہ دیں بلکہ ملکی بھلائی کو مد نظر رکھیں۔