1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اکیسویں صدی کا سونا، سمندر کی تہہ میں

4 جولائی 2011

بحرالکاہِل کی تہہ میں نایاب معدنیات دریافت ہوئی ہیں۔ ان کی مقدار زمین میں پائی جانی والی نایاب معدنیات سے 1000 گنا زیادہ ہے۔

https://p.dw.com/p/11oNU

نایاب معدنیات (rare earths) الیکٹرک کاروں، فلیٹ اسکرین ٹیلی وژنز، آئی پیڈ اور اس زمرے میں آنے والی جدید مصنوعات کی تیاری کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

جاپانی محققین کی طرف سے یہ رپورٹ پیر کے روز شائع کی گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان ذخائر کی مقدار 100 بلین ٹن کے قریب ہے۔ رپورٹ کے مطابق نایاب معدنیات کے یہ ذخائر تین ہزار پانچ سو سے چھ ہزار میٹر تک گہرے اور 11 ملین مربع میٹر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان نایاب معدنیات کو پمپ کرتے ہوئے سمندر کی تہہ سے بحری جہازوں تک لایا جائے گا جبکہ بعد میں چند گھنٹوں میں ان معدنیات کو تیزابی پانی کے استعمال سے مٹی سے علیحدہ کر لیا جائے گا۔

ابھی تک نایاب معدنیات کے سب سے بڑے ذخائر چین میں ہیں۔ دنیا میں 97 فیصد نایاب معدنیات وہیں سے حاصل ہوتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق چین نایاب معدنیات کے ہتھیار کو سفارتی اور سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ چین نے جاپان کے ساتھ اس سے قبل سفارتی تعلقات میں تلخی کی بنیاد پر دھات کی برآمد بند کر دی تھی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپانی محققین کی یہ رپورٹ چین کو خائف کر دے گی،جو پہلے ہی ایسی معدنیات اور دھاتوں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے اور Senkaku کے متنازعہ جزیروں پر اپنا حق جتاتا ہے۔ یہ جزیرے جاپان اور تائیوان کے مابین سمندر میں واقع ہیں۔ جاپان کی طرف سے گزشتہ مہینے میں چین سے تین فیصد کم نایاب معدنیات خریدی گئی ہیں جبکہ نایاب معدنیات کی قیمتیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔

سن 2009 میں جاپان نے اعلان کیا تھا کہ وہ سمندر کی تہہ میں پائی جانے والی معدنیات اوردھاتوں کے بارے میں تحقیق کے لیے اپنی ریمورٹ کنٹرول آبدوزیں سمندر کی تہہ میں بھیجے گا۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: ندیم گِل