1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی ایٹمی پروگرام: جنیوا مذاکرات اچھی پیشرفت

2 اکتوبر 2009

ایران کے ایٹمی پروگرام پر کئی برسوں کے تنازعے کے بعد ایرانی مذاکرات کار سعید جلیلی کا یہ بیان غیر معمولی تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ جمعرات کو جنیوا میں اچھے مذاکرات ہوئے، جو مزید بہتر مذاکرت کا دائرہء کار طے کریں گے۔

https://p.dw.com/p/JwYl
تصویر: AP

اگرچہ اِس بار پہلی مرتبہ امریکہ براہِ راست اِن مذاکرات میں شریک ہوا لیکن مذاکرات کاروں کی ایک سال کے عرصے میں ہونے والی اِس پہلی ملاقات سے زیادہ اُمیدیں وابستہ نہیں کی جا رہی تھیں۔ وجہ یہ تھی کہ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ماحول کچھ زیادہ ہی گرم ہو گیا تھا۔ ایران نے یہ خبر جاری کی کہ وہ یورینیم کی افزودگی کے ایک اور مرکز کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہے۔ ساتھ ہی ایران نے زور شور سے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے تجربات بھی کئے۔ اِس کے بعد سے امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے تہران حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کے عملی شکل اختیار کرنے کے امکانات معدوم ہونا شروع ہو گئے تھے۔

Iran Atomgespräche in Genf Solana
یورپی یونین کے خارجہ امور کے سربراہ خاویئر سولاناتصویر: AP

تاہم جمعرات یکم اکتوبر کو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں منعقدہ مذاکرات کے بعد مایوسی کے یہ بادل چھٹتے نظر آتے ہیں۔ ایک تو ماہِ رواں کے اواخر میں اِس مذاکراتی سلسلے کو آگے بڑھانے کا اعلان کیا گیا ہے اور تب تک کئی ایک مثبت اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔ مثلاً یہ کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی آئی اے ای اے کے انسپکٹرز کو یورینیم کی افزودگی کے نئے ایرانی مرکز کے معائنے کا موقع مل سکے گا۔ یا یہ کہ ایران اب تک افزودہ کئے گئے یورینیم کو مزید پروسیسنگ کے لئے روس بھیجے گا۔

ان نکات پر عملدرآمد ہو جانے کی صورت میں گذشتہ چند روز کے وہ تمام جھوٹ سامنے آ جائیں گے، جن کا مقصد یہ تھا کہ ایران کے خلاف زیادہ سخت طرزِ عمل اختیار کیا جائے اور اُن کے خلاف اضافی پابندیاں عائد کی جائیں۔ یہ مطالبات زیادہ تر یورپی ممالک کی جانب سے کئے گئے۔ روس اور چین یا تو خاموش رہے یا پھر اُنہوں نے اِس طرح کی پابندیوں کی مخالفت کی جبکہ امریکی صدر اوباما نے بہرحال اتنا تو یقین دلایا کہ سرِدست وہ مکالمت کی پیشکش پر قائم ہیں۔ جنیوا مذاکرات کے بعد اُنہوں نے اپنی اِس پیشکش کا پُر زور اعادہ کیا، گو اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اب وہ تہران حکومت کی جانب سے حقیقی تعاون کی توقع کر رہے ہیں۔

ایران کا رویہ بھی اس سلسلے میں کم از کم اِس وقت تک تو فیصلہ کن نظر آتا ہے۔ ماضی کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ ایران کے رویے میں تھبی لچک نظر آتی ہے، جب کسی الٹی میٹم کے ختم ہونے کا وقت قریب آتا ہے۔ اِس بار بھی ایسا ہی ہوا: ایران کو ستمبر کے اواخر تک کا وقت دیا گیا تھا اور تب مزید اقدامات کا فیصلہ کیا جانا تھا۔ تاہم اب یہ دھمکی ختم ہو چکی ہے۔ اب پہلے مذاکرات ہوں گے۔ اِس طرح ایران نے اپنے موقف سے ایک اِنچ بھی پیچھے ہٹے بغیر اپنے لئے مزید مہلت حاصل کر لی ہے۔

تبصرہ: پیٹر فلیپ / امجدعلی

ادارت: کشور مصطفٰی