1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی قیادت کے طرز عمل پر اوباما کا محتاط رد عمل

رپورٹ: کشور مصطفیٰ ، ادارت : شامل شمس20 جون 2009

امریکی صدر باراک اوباما نے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کے اس خطبے کے بعد گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جس میں انہوں نے حالیہ انتخابات کے متنازعہ نتائج کو صحیح اور محمود احمدی نژاد کی کامیابی کا حتمی اعلان کیا۔

https://p.dw.com/p/IVIQ
باراک اوباما کا بیان ان کے گزشتہ بیانات کے مقابلے میں سخت ہے تاہم ان کے لہجے میں اب بھی اتنی تیزی نہیں پائی جاتیتصویر: picture-alliance/ dpa / DW-Montage
Wahlen Iran Khamenei Rede
تہران یونیورسٹی کے کیمپس میں ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای نے خطاب کرتے ہوئے احمدی نژاد کی حمایت کیتصویر: AP


امریکی کانگریس نے تہران حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ احتجاجی مظاہرین پر تشدد اور آزادئ رائے کو دبانے کی کوششیں بند کرے۔ امریکی صدر اوباما گرچہ اب تک ایران کے بارے میں بیانات دینے میں خاصے محتاط رہے ہیں تاہم خامنہ ای کے خطاب کے بعد اوباما کی طرف سے پہلی بار ایرانی قیادت پر بالواسطہ حملہ سننے میں آ رہا ہے۔ ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں اوباما نے کہا کہ "وہ آیت اللہ خامنہ ای کے چند بیانات اور ان کے خطاب کے نچوڑ کے بارے میں متفکر ہیں۔ ایرانی قیادت کو یہ علم ہونا چاہئے کہ ساری دینا کی نگاہیں اس وقت ان پر جمی ہوئی ہیں۔"

باراک اوباما کا بیان ان کے گزشتہ بیانات کے مقابلے میں سخت ہے تاہم ان کے لہجے میں اب بھی اتنی تیزی نہیں پائی جاتی جتنی کہ ایران کے ناقد یورپی ممالک کے سربراہان کے لہجے میں ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق اوباما ایران کی صورتحال پر مزید واضح بیان اس وقت دیں گے جب تہران حکومت احتجاجی مظاہرین کے خلاف سخت تر اقدامات کرے گی۔ اب تک واشنگٹن کا موقف یہ رہا ہے کہ مظاہرین کی بہت زیادہ حمایت غالباً منفی اثرات مرتب کرنے کا باعث بنے گی۔

Wahlkampf Iran 10 Juni Flash-Galerie
ہفتہ کے روز بھی مظاہرین سڑکوں پہ نکل آئے۔ پولیس کے مظاہرین پر تشدّد کی اطلاعات ہیںتصویر: picture alliance / landov

صدر اوباما نے بھی اس قسم کا تاثر دیتے ہوئے اپنے انٹرویو میں واضح کیا کہ ان کی کبھی بھی یہ خواہش نہیں ہو گی کہ امریکہ ایسی ایرانی قوتوں کا پلیٹ فارم بنے جو امریکہ کو اس بحث میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ امریکہ کو اس قسم کے کسی کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہئے۔

اوباما کے اس محتاط رویے پر انہیں ریپبلکن پارٹی کی طرف سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جب کہ ان کے ڈیموکریٹ ساتھی ان کی موجودہ ایران پالیسی پر خوش ہیں۔ گزشتہ روز امریکی کانگریس کے کے دونوں ایوانوں نے مشترکہ طور پرایک قرارداد کے ذریعے ایران میں آزادئ رائے اور میڈیا پر پابندی اور مظاہرین کے خلاف تشدد کے استعمال کی مذمت کی گئی۔ تاہم واشنگٹن میں اسے ایرانی صدر کے ساتھ گستاخی یا ہتک کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا۔ اس کا مطلب ہے کہ کانگریس کی قراردادیں اوباما کے خیالات کی منعکس ہیں۔

غیر جانب دار مبصرین امریکہ کی ایران پالیسی کو کانگیرس اور صدر کے مابین کاموں کی تقسیم سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ایک طرف امریکہ کانگریس کے ذریعے ایران کے حالیہ واقعات کے بارے میں اپنا موقف واضح کر رہا ہے، دوسری طرف امریکی صدر اوباما اپنے محتاط بیانات کے ذریعے تہران کی قیادت کے ساتھ اس کے ایٹمی تنازعہ اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر بات چیت کی راہ ہموار رکھنا چاہتے ہیں۔

اوباما نے اپنے ٹیلی وژن انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ انکا ملک ایران کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے اور دراصل یہ ایرانی عوام کا اپنا فیصلہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے ملک کے مستقبل کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔