ایران مذاکرات کی پیشکش کا فوری جواب دے:کیتھرین ایشٹن
23 اکتوبر 2010کیتھرین ایشٹن جو ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے بارے میں دنیا کی بڑی طاقتوں اور تہران حکومت کے مابین بات چیت کی پیش قدمی میں کلیدی ترجمان کا کردا ادا کر رہی ہیں، رواں ماہ کے اوائل میں ایران کو مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی پیشکش کر چکی ہیں۔ ایرانی میڈیا کے مطابق اس پر تہران نے مثبت رد عمل ظاہر کیا تھا تاہم کوئی حتمی جواب اب تک نہیں دیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان مذاکرات کی جگہ آسٹریائی دارالحکومت ویانا جبکہ تاریخ 15 تا 17 نومبر تجویز کی گئی ہے، جس کے بارے میں ایرانی مذاکرات کاروں کی دیگر مصروفیات کے سبب اب تک حتمی اور سرکاری طور پر اس کی حامی نہیں بھری گئی ہے۔
دریں اثناء یورپی یونین میں رُکنیت حاصل کرنے کا خواہاں ملک ترکی، جو ایران پراقوام متحدہ اور یورپی یونین کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی مخالفت کرتا رہا ہے، کے لئے سفارتی سطح پر مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ انقرہ حکومت پر یورپی یونین کی اقتصادی موٹر انجن کی حیثیت رکھنے والے ملک جرمنی کا بھی اس سلسلے میں غیرمعمولی دباؤ ہے۔ جمعہ کے روز ترکی کا پانچ روزہ دورہ مکمل کرنے والے جرمن صدر کرسٹیان وولف نے بھی اپنے دورے کے دوران ترک حکام کے ساتھ ایران پر پابندیوں کے بارے میں بات چیت کی۔
وولف نے ترک پارلیمان سے بحیثیت جرمن سربراہ مملکت اپنے تاریخی خطاب میں بھی انقرہ پر زور دیا کو وہ اپنے پڑوسی اسلامی ملک ایران پریورپی یونین کی پابندیوں کی حمایت کرے۔ ترک خبررساں ایجنسیوں کے مطابق ترک وزارت خارجہ کے ایک ترجمان سلیم یینل نے ایک سرکار ی بیان میں کہا ہے، ’ ترکی محض اقوام متحدہ کی پابندیوں پر عملدرآمد کا پابند ہے اور امریکہ اوریورپی یونین کی طرف سے عائد کردہ پابندیاں یکطرفہ ہیں، جن کے بارے میں ترک حکومت کے ساتھ کوئی صلاح و مشورہ نہیں کیا گیا تھا، اس لئے انقرہ حکومت پر لازم نہیں کہ وہ ان کی حمایت و تائید کرے۔‘
مغربی خفیہ سروسز نے اس قسم کے خدشات پر تشویش ظاہر کی ہے کہ ترکی کے چند مالیاتی شعبے اور سرکاری بینکوں کو ایرانی مصنوعات ، خاص طور سے تہران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق سامان کی خرید کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایران کے دوسرے سب سے بڑے مرکزی بینک ملت کا یورپی یونین اور امریکہ دونوں نے بائیکاٹ کررکھا ہے۔ جبکہ ترکی کے تین بڑے شہروں میں اس ایرانی بینک کی شاخیں موجود ہیں۔
اگست کے ماہ میں امریکہ کا ایک اعلیٰ سطحی وفد ترکی گیا تھا اور وہاں اُس نے ترکی کی بڑی بڑی کمپنیوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ ایران پر امریکی پابندیوں کی خلاف ورزی نہ کریں۔
دریں اثناء ترکی کے ایک معروف تجارتی ادارے ’ گلوبل سکیوریٹیز‘ سے منسلک ماہر ایمرے ییگت نے کہا ہے کہ ایران کی طرف یورپی یونین اور امریکہ کا رویہ روز بروز سخت تر ہوتا جا رہا ہے، جو ایک غیرحقیقت پسندانہ سلوک ہے۔ انہوں نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا، ’ ایران اور ترکی ہمسایہ ممالک ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے مابین تجارتی اوراقتصادی روابط کو ختم کرنے کا مطالبہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی جرمنی اورفرانس سے کہے کہ یہ دونوں پڑوسی ممالک آپس میں درآمدات اور برآمدات کا سلسلہ ختم کریں۔‘ واضح رہے کہ ترکی کی معیشت اس وقت بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: عاطف بلوچ