1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں موسوی کے متعدد حامی گرفتار

30 جولائی 2009

ایران میں پولیس نے آج جمعرات کو حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد حکومت مخالف مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں ایک مقامی قبرستان میں جمع متعدد افراد کو حراست میں لے لیا۔

https://p.dw.com/p/J0Mu
حسین موسوی اپنے حامیوں میں گھرے ہوئےتصویر: AP

ایران میں متنازعہ صدارتی الیکشن کے نتائج کے خلاف مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں تقریب کے دوران قبرستان میں جمع اپوزیشن کارکنوں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور ملکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کی مطابق اس دوران بہت سے شہریوں کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔

اپوزیشن رہنما میر حسین موسوی جب اپنے سینکڑوں حامیوں کے ہمراہ تہران کے نواح میں بہشت زہرہ نامی قبرستان پہنچے تو انہیں ندا آغا سلطان کی قبر پر جانے سے روک دیا گیا۔ ایران میں ایسی تقریبات کا انعقاد بالعموم ممنوع ہوتا ہے، مگر میر حسین موسوی اور مہدی کروبی نے ندا سلطان کی والدہ کی درخواست پر ان کے چہلم میں شرکت کی حامی بھری تھی۔ چھبیس سالہ ندا سلطان 20 جولائی کو پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی ایک جھڑپ میں ہلاک ہو گئی تھی۔

Demonstration im Iran
ایران میں حکومت مخالف حالیہ مظاہرے کا ایک منظرتصویر: AP

قبل ازیں ایرانی حکومت نے ناکام قرار دیئے جانے والے صدارتی امیدوار موسوی اور کئی دیگر اپوزیشن رہنماؤں کی اس زمرے میں دی گئی درخواست مسترد کر دی تھی۔ اس درخواست میں موسوی کے حامیوں نے حالیہ مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والے شہریوں کی یاد میں ایک باقاعدہ تقریب منعقد کرنے کی اجازت مانگی تھی۔

تہران میں محافظین انقلاب کہلانے والی سیکیورٹی فورس کے سربراہ عبداللہ اراقی نے آج کے اجتماع سے قبل حکومت مخالف مظاہرین کو خبر دار کر دیا تھا کہ ایسی کسی بھی تقریب کے انعقاد سے مجمع کے شرکاء اور سیکیورٹی اہلکاروں کے مابین تصادم کے امکانات زیادہ ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مذاق بالکل نہیں ہے اور جو لوگ مذہبی انتظامیہ سے لڑنا چاہتے ہیں ان کا بھرپور مقابلہ کیا جائے گا۔

جون میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں کے خلاف اپوزیشن رہنما میر حسین موسوی کی قیادت میں اب تک ایران میں متعدد بڑے بڑے مظاہرے کئے جا چکے ہیں۔ ان مظاہروں میں حکومت نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ایک ہزار سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر لیا تھا جبکہ کم ازکم 20 افراد ہلاک بھی ہوگئے تھے۔

تہران حکومت کے مطابق صدارتی الیکشن کے بعد سے اب تک وقفے وقفے سے جاری مظاہروں کے دوران حراست میں لئے گئے کل تین سو کے قریب شرکاء ابھی تک سرکاری تحویل میں ہیں، تاہم گزشتہ منگل کے روز جن 140 مظاہرین کو رہا کیا گیا تھا وہ اس تعداد میں شامل نہیں۔ ایسے ہی متعدد مزید قیدیوں کی رہائی جمعہ کے روزکو متوقع ہے۔

ابھی تک زیر حراست مظاہرین کے بارے میں ملکی اپوزیشن حکومت پر ان سیاسی کارکنوں سے بدسلوکی کا الزام بھی لگا رہی ہے۔ سابق صدر محمد خاتمی نے جمعرات کو اسی بارے میں کہا تھا کہ حالیہ بحران اور مظاہروں کے دوران حکومتی اقدامات سے شہریوں کے شخصی وقار کی پامالی سمیت متعدد انسانی جانوں کا بھی ضیاع ہوا ہے۔

رپورٹ: میرا جمال

ادارت: مقبول ملک