1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں کشیدگی برقرار

رپورٹ:عابد حسین، ادارت: ندیم گل27 جون 2009

بارہ جون کے متنازعہ ایرانی صدارتی انتخابات کے بعد ایران میں مظاہروں اور گرفتاریوں کے باعث کشیدگی تاحال برقرار ہے۔

https://p.dw.com/p/IcJZ
تصویر: AP
Deutschland Iran Wahlen Lichter für die Opfer in Berlin
بیشتر مغربی ممالک نے ایران میں مظاہرین پر تشدد کے واقعات کی مذمت کیتصویر: AP

گزشتہ روز امریکی صدر اور جرمن چانسلر کے درمیان ایران کے حوالے سے سوچ اور پالیسی میں اتفاقِ رائے سامنے آیا تھا۔ اِسی طرح یہ موضوع گروپ ایٹ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھی توجہ کا مرکز رہا۔

اُدھر ایران کے اندر حکومت نے ہارنے والے صدارتی الیکشن کے اُمیدوار میر حسین موسوی کے قریبی حامیوں اور ساتھیوں کی بیرون ملک جانے کی کوششوں پر پرنگرانی کا عمل شروع کر رکھا ہے۔

اِس عمل میں تازہ ترین یہ ہے کہ میر حسین موسوی کے انتخابی دفتر میں قائم میڈیا آفس کے سربراہ ابُو الفضل فتح کا کہنا ہے کہ یہ موسوی کی بنیادی پالیسی میں تبدیلی کا باعث نہیں ہو سکتی۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ ایسی حکومتی پابندیوں سے اُن جیسی سوچ کے افراد اپنے سیاسی نظریات کو تبدیل نہیں کریں گے۔

ابُو اُلفضل فتح کو صدارتی الیکشن میں اہم کردار ادا کرنے پر ایران سے باہر جانے سے روک دیا گیا ہے۔ وہ برطانیہ میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔ ابُو الفضل فتع کے ایران چھوڑنے پر پابندی کی سرکاری طور پر بھی تصدیق سامنے آ چکی ہے۔

متنازعہ صدارتی الیکشن کے بعد ایرانی حکومت نے عوام کو مظاہروں میں شرکت پر سخت نتائج کی دھمکی دے رکھی ہے۔

ہفتے کے روز بھی ایرانی دارالحکومت تہران کی گلیوں میں چھوٹے چھوٹے گروپوں کی جانب سے جلوس یا اجتماع کرنے کی کوشش ضرور کی گئی۔ اِن کی اطلاعات موصول ہوئیں ہیں۔ ایسے چھوٹے اجتماعات منتشر کرنے کے لئے سیکیورٹی حکام نے لاٹھی چارج اور آنسُو گیس کا استعمال کیا۔ مجموعی طور پر ہفتہ کے دِن تہران میں زندگی معمُول کے مطابق دیکھی گئی۔

ایرانی حکام نے میر حسین موسوی کو تہران میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ موسوی اِس کی ذمہ دار حکومت پر ڈالتے ہیں۔ سرکاری میڈیا کے مطابق اِن مظاہروں میں کم از کم بیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔

Proteste im Iran
ایران میں پرتشدد مظاہروں کے دوران کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئےتصویر: dpa

صدارتی الیکشن میں شکست سے دوچار میر حسین موسوی انتخابات کی منسوخی کا مطالبہ کرتے ہیں اور دوسری جانب ایران کے اعلیٰ قانون ساز ادارے شوریِٰ نگہبانِ اِس مطالبے کو رد کر چکی ہے اور اُس نے انتخابات میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کو تسلیم کرنےسے انکار کردیا ہے۔

جمعہ کو امریکی صدر باراک اوباما نے ایرانی عوام کی جُرات کی تعریف کی تھی جب کہ سخت مؤقف کے ایرانی صد محمود احمدی نژاد نے امریکی صدر کو ایک بار پھر مشورہ دیا ہے کہ وہ ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہیں۔