ایران کا جوہری پروگرام
9 اپریل 2008ایران کی جانب سے چھ ہزار نئے سینٹری فیوج کی تیاری کے اعلان پر امریکہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ اس بات پتہ دیتی ہے کہ ایران سلامتی کاونسل کی قراردادوں کو خاطر میں نہیں لا رہا اور حساس جوہری کام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
یورپی ملک فرانس نے ایرانی اعلان کے بعد مزید سخت پابندیوںکا تجویز پیش کی ہے۔ماہرین بھی اس بات پر حیران ہیں کہ عالمی درجہ بندی میں ایران تیل پیدا کرنےوالا چو تھا بڑا ملک ہے اور اُس کو توانائی کے لیئے جوہری پروگرام کیونکہ ضرورت ہے۔یہی وہ خدشہ ہے جس کی بنیاد پر مغرب کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ درحقیقت ایٹمی ہتھیار سازی کا ارادہ رکھتا ہے۔
ایران نے منگل کو ایٹمی ٹیکنالوجی کا قومی دِن زور شور سے منایا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس کا خیال ہے کہ ایران مسلسل عالمی سطح پر خودکو مرکزی بین الاقوامی دھارے سے علیحدہ کرتے ہوئے تنہا ہو رہا ہے۔جرمنی، برطانیہ، فرانس اور امریکہ کی جانب سے اگر سخت پابندیوں کی بات کی جا رہی ہے تو ایرانی جوہری پروگرام میں معاونت کرنےوالا ملک روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاف روف کا کہنا ہے کہ سن دو ہزار چھ کے پیکیج میں نئی اور مثبت تجاویز سامنے لانی ضروی ہیں تاکہ ایران کو جوہری پروگرام پر عمل درامد پر روکنے کے لیئے قائل کیا جاسکے۔ایرانی جوہری مسئلے پر ایک پیش رفت یہ ہے کہ اہم یورپی ملکوں سمیت روس اور امریکہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیئے ایک نئے پیکیج تیار کرنے پر رضامند ہیں ۔
آسٹروی دارالحکومت وی آنا میں ایٹمی ایجنسی کے ماہرین اور سفارتکاروں کا بھی کہنا ہے کہ ایران سینٹری فیج کے لیئے ایک اور جدید مشین کی تنصیب میں مصروف ہے۔دوسری طرف ایران نے یورینئم افزودگی کی ایک نئی مشین کو ایرانی صدر کی موجودگی میں ٹیسٹ کیا گیا ہے۔ یہ نئی مشین بھی سینٹری فیوج کی تیاری میں مددگار ہو گی۔
ایران کی خواہش ہے کہ آنےوالےمہینوں میں پچاس ہزار سنٹری فیوج کی تنصیب ممکن بنائی جائے تاکہ جوہری مقامات دوران کام کسی قسم کی توانائی کی کمی کا احساسا سائنس دان اور دوسرا عملہ محسوس نہ کرے۔
بو شہر میں روس کی مدد سے تعمیر کیا جانےوالا جوہری مرکز اس سال کے آخر میں مکمل ہونے کے بعد پیداواری یونٹ بن جائے گا۔اقوام متحدہ سمیت دوسرے ملکوں کی مخالفت کے باوجود اپنے جوہری پروگرام پر ڈٹا ہوا ہے اور اُس سے دستبردار ہونے کے لیئے تیار نہیں ہے۔