1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ایسے نہیں چلے گا‘ جرمن صدر کی اپنے ترک ہم منصب پر تنقید

23 جولائی 2017

برلن اور انقرہ کے مابین موجودہ تناؤ کے تناظر میں جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے اپنے ترک ہم منصب ایردوآن پر کڑی تنقید کی ہے،’’یہ جرمنی کی خود داری کا معاملہ اور ایردوآن کا یہ طرز عمل کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

https://p.dw.com/p/2h1Ht
تصویر: picture-alliance/dpa/Turkish President Press Office

جرمن نشریاتی ادارے ’زیڈ ڈی ایف‘ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اشٹائن مائر نے کہا، ’’ایردوآن صرف ملک کو ہی تقسیم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اب ناقدین اور حزب اختلاف کا پیچھا کیا جا رہا ہے تاکہ انہیں جیل بھیج کر انہیں خاموش کرا دیا جائے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے برلن کی جانب سے ترکی کے لیے پالیسی میں تبدیلی کا بھی دفاع کیا

Türkei Aktion des türkischen Militär in Silvan
تصویر: Getty Images/AFP/I. Akengin

ابھی جمعرات کے روز ہی ترکی میں ایک جرمن پیٹر شٹوئڈنر سمیت  انسانی حقوق کے چھ کارکنوں کی گرفتاری کے باعث پیدا ہونے والی دوطرفہ کشیدگی کے تناظر میں وفاقی جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے ترکی کے خلاف متعدد اقدامات کا اعلان کیا تھا۔گابریئل نے کہا تھا کہ برلن اب اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ بڑے جرمن کاروباری ادارے ترکی میں سرمایہ کاری کریں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب ان کے لیے یہ سوچنا محال ہے کہ یورپی یونین ترکی کے ساتھ کسٹمز یونین میں توسیع سے متعلق کوئی مذاکرات کرے گی۔

 

ترکی: ناکام فوجی بغاوت کا ایک سال، ایردوآن مزید بااختیار

جرمنی اپنے ہاں ’دہشت گردوں‘ پر توجہ دے، ترک صدر ایردوآن

۔’آپ کا تعلق یہاں سے ہے‘

 جرمن صدر نے  گزشتہ روز گابریئل کی جانب سے جرمنی میں رہائش پذیر ترک شہریوں کے لیے ایک کھلے خط کا دفاع بھی کیا، جس میں ترک نژاد باشندوں کو جرمنی کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ ان کے بقول جرمنی میں ترک پس منظر کے حامل تین ملین افراد پر لازمی طور پر توجہ دی جانا چاہیے، ’’ان میں سے بہت سے لوگوں کی جانب سے روابط کے جو متعدد پل تعمیر کیے گئے تھے، وہ انقرہ حکومت نے ڈھا دیے ہیں۔‘‘

متعدد ترک حلقوں کی جانب سے بھی وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کے خط کو بہت سراہا گیا ہے۔ ترک برداری کی ایک تنظم کے چیئر مین گوکے صوفوگلو کے بقول، ’’جرمنی میں رہتے ہوئے ہمیں تقسیم کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ترک پس منظر رکھنے والے لوگوں کو جرمنی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے‘‘۔

 

’ترکی کی بجائے جرمن حکومت مساجد کو مالی امداد فراہم کرے‘