1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشیا: الیکٹرانک کچرے میں حیران کن اضافہ

15 جنوری 2017

ایشیا میں کروڑوں ایسے افراد ہیں، جو سمارٹ فون اور ٹیبلیٹس کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ الیکٹرانک کچرے میں بھی حیران کن اضافہ ہوا ہے، جس کے نہ صرف انسانی صحت بلکہ ماحول پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2VpNb
Symbolbild Alte Mobiltelefone Handy Entsorgung
تصویر: imago/imagebroker

اقوام متحدہ کی یونیورسٹی کی طرف سے جاری ہونے والی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ایشیا میں پیدا ہونے والے الیکڑانک کچرے میں تریسٹھ فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔

اس ادارے کی طرف سے خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس خطے کے ممالک کو ری سائیکلنگ اور ڈسپوزل طریقوں کو فوری بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے شریک مصنف اور اقوام متحدہ یونیورسٹی کے پائیدار سائیکلز پروگرام کے سربراہ روڈیگر کوئر کا کہنا تھا، ’’ بہت سے ممالک میں پہلے ہی سے ای ویسٹ مینجمنٹ کے لئے بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے اور الیکڑانک کچرے کی بڑھتی ہوئی مقدار باعث تشویش ہے۔‘‘

Afrika Togo - EcoAfrica zu Müllentsorgung
تصویر: DW/B. Thoma

گزشتہ کئی برسوں سے چین اور کئی دوسرے ممالک ترقی پذیر ممالک سے آنے والے الیکڑانک کچرے کے لیے ڈمپنگ یارڈ کا کام دیتے رہے ہیں اور ان کی ری سائیکلنگ اکثر ایسی فیکڑیوں کی میں جاتی رہی ہے جہاں مناسب حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ اکثر اوقات الیکڑانک کچرے کو کھلی فضا میں ہی آگ لگا دی جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اب مسئلہ یہ ہے کہ خود ان ممالک کے باسیوں نے الیکڑانک اشیاء کا استعمال تیزی سے شروع کر دیا ہے۔ ان ممالک میں فونز، ٹیبلیٹس، ریفریجریٹرز، پرسنل کمپیوٹر اور ٹیلی ویژن خریدنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایشیا میں سب سے زیادہ الیکڑانک کچرا چین میں پیدا ہو رہا ہے جبکہ ہانگ کانگ کو اس لحاظ سے بدترین درجہ دیا گیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار پندرہ میں ہانگ کانگ ہر ایک فرد تقریبا بائیس کلوگرام الیکڑانک کچرے کا باعث بنا ہے۔

اسی طرح سنگاپور تائیوان بھی آگے آگے ہیں۔ فی کلو کی اوسط شرح کے لحاظ سے کمبوڈیا، ویت نام اور فلپائن ایسے ممالک ہیں، جہاں سب سے کم الیکڑانک کچرا پیدا ہو رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بہت سے ممالک میں ایسا کوڑا کباڑ غیرمناسب اور غیرقانونی طریقے سے زیر زمین میں دبایا جا رہا ہے، جس کے نہ صرف ماحول بلکہ انسانی صحت پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

جہاں جہاں الیکڑانک کوڑے کو زیر زمین دبایا جا رہا ہے، ان کے علاقوں کے بچوں کے خون میں لیڈ جیسے عناصر کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور وہ بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔