1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشیا کے تاجر پریشان نہ ہوں، یورپی کمیشن کے سربراہ

عدنان اسحاق14 جولائی 2016

یورپی کمیشن کے سربراہ ژان کلود ینکر نے ایشیا کے فکر مند تاجروں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلاء کے بعد بھی تجارتی تعلقات خراب نہیں ہوں گے۔ ینکر کے بقول بریگزٹ سے تجارت سے متاثر نہیں ہوگی۔

https://p.dw.com/p/1JP3o
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Parra

منگولیا میں ایشیا یورپ سربراہی اجلاس ’ اے ایس ای ایم‘ کے موقع پر ینکر کا کہنا تھا،’’برطانیہ ہمارا دوست ہی رہے گا۔ ہم اس کا ساتھ دیں گے اور اس کی جانب پیٹھ نہیں موڑیں گے۔ ہم ہر سطح پر مشترکہ مفادات کا خیال کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پہلے کی طرح جاری رکھیں گے‘‘۔

ینکر نے اس موقع پر کہا کہ یورپی یونین ابھی بھی دنیا کا سب سے بڑا تجارتی اتحاد یا بلاک ہے اور یورو عالمی منڈی میں ڈالر کے بعد دوسری سب سے اہم ترین کرنسی ہے،’’دنیا کے ان دونوں براعظموں کو ایک دوسرے سے بہتر انداز میں منسلک کرنے کے حوالے سے ہماری سوچ اور مفادات بالکل واضح ہیں۔ بات صرف ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبوں میں نیٹ ورک بنانے تک ہی محدود نہیں ہے۔‘‘

Brüssel Brexit Gipfel Jean- Claude Juncker
یورپی یونین ابھی بھی دنیا کا سب سے بڑا تجارتی اتحاد یا بلاک ہے، ینکرتصویر: picture-alliance/dpa/S. Lecocq

یورپی کمیشن کے سربراہ کے مطابق، ’’ہمیں اپنے قوانین اور معیارات کو لازمی طور پر ہم آہنگ بنانا ہو گا تاکہ ہمارے شہری آزادی اور آسانی کے ساتھ سفر کر سکیں اور ہمیں سامان کی ترسیل میں رکاوٹ کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔‘‘

اس اجلاس کے تناظر میں جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ وہ اجلاس کے دوران مطالبہ کریں گے کہ بحیرہ جنوبی چین کی ملکیت کے معاملے پر بین الاقوامی ٹربیونل کے فیصلے کا احترام کیا جائے۔ آبے نے کہا، ’’ میں قانون کے احترام اور بالادستی کے ساتھ ساتھ بحیرہ جنوبی کے بارے میں ایک پرامن قرارداد کی بات کروں گا‘‘۔ دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی ٹریبونل نے منگل کے روز اس سمندری علاقے پر چین کے ملکیت کے دعوے کو رد کر دیا تھا۔ چین کی طرف سے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ بحیرہ جنوبی چین کے اس حصے پر ایک ایئر ڈیفنس زون قائم کرنے کا حق رکھتا ہے۔

’ اے ایس ای ایم‘ کو 1996ء میں قائم کیا گیا تھا اور اس کا مقصد ایشیا اور یورپ کے باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنا تھا۔ اس تنظیم کے ارکان کی تعداد پچاس کے قریب ہے اور یہ لوگ کل جمعے اور ہفتے کو ملاقات کر رہے ہیں۔