1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایم آئی17ہیلی کاپٹر کے یرغمالیوں کا معمہ ابھی تک حل طلب

عبدالستار، اسلام آباد8 اگست 2016

افغان صوبے لوگر میں کریش لینڈنگ کرنے والے پاکستانی ہیلی کاپٹر کا نہ تو کوئی پتہ چلا اور نہ ہی اس میں سوار افراد کے بارے میں افغان حکومت کوئی سراغ لگا پائی ہے۔ اس حوالے سے مقامی میڈیا میں خبریں بھی ٹھنڈی پڑتی جا رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JdSH
Pakistan Transport der sterblichen Überresten nach dem Absturz des MI-17 Hubschraubers
تصویر: picture-alliance/epa/Z. Abbas

روسی ساخت کا MI17 ہیلی کاپڑ پنجاب حکومت کے زیر استعمال تھا جیسے مرمت کے لیے چار اگست بروز جمعرات ازبکستان لے جایا جا رہا تھا لیکن ہیلی کاپٹر کو ہنگامی طور پر افغانستان کے صوبے لوگر میں اتارنا پڑ گیا تھا۔ اس واقع کے فورا بعد پاکستانی ذرائع ابلاغ نے دعوی ٰ کیا تھا کہ ہیلی کاپٹر کو افغان طالبان نے جلا دیا ہے اور اس کے عملے کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے افغان طالبان کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ہیلی کاپٹر میں سوار افراد عسکریت پسند تنظیم کے مقامی کمانڈر کی حراست میں ہیں اور یہ کہ ان کی قسمت کا فیصلہ افغان طالبان قیادت کرے گی۔

اس کہانی میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب اتوار کو تحریک طالبان پاکستان حکیم اللہ محسود گروپ نے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے پنجاب حکومت کے اس ہیلی کاپٹر کو گرایا ہے۔ اس عسکریت پسند گروہ کے ایک رہنما قاری سیف اللہ نے پاکستانی ذرائع ابلاغ کو فون کر کے اپنے آپ کو اس گروپ کا ترجمان بتایا اور کہا کہ اس کے گروپ نے ہیلی کاپٹر گرایا ہے اور اس کے عملے کو یرغمال بنایا ہے۔

سیف اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ہیلی کاپٹر میں سوار روسی شہری زخمی ہے اور اُس کو افغانستان میں ایک محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا ہے۔ اس ترجمان نے دھمکی دی تھی کہ اگر نیٹو، افغان طالبان یا افغان فورسز نے ان یرغمالیوں کو بزور طاقت آزاد کرانے کی کوشش کی تو انہیں قتل کر دیا جائے گا۔

قاری سیف اللہ کے بقول عسکریت پسند کمانڈر آدم خان کوچی نے اس ہیلی کاپڑ کو گرایا جبکہ اس ہی کی حراست میں اب یہ عملہ ہے۔ اس خبر کے بعد ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان محمد خراسانی نے ایک وضاحتی بیان میں اس بات کی تردید کی کہ حکیم اللہ محسود نام کے کسی گروہ کا وجود نہیں ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ آدم خان کوچی ان کے گروہ کا کمانڈر ہے لیکن نہ ہی وہ اس ہیلی کاپٹر کو گرانے میں ملوث ہے اور نہ ہی اس نے عملے کو یرغمال بنایا ہے۔

چھ پاکستانیوں اور ایک روسی کے یرغمال بنائے جانے کی خبر نے پاکستان میں ہلچل مچا دی تھی۔ اعلیٰ حکام کی اس معاملے میں غیر معمولی دلچسپی نے مختلف افواہوں کو جنم دیا، جس میں ایک یہ بھی تھی کہ یرغمال بنائے جانے والوں میں کوئی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا رشتہ دار بھی ہے۔ تاہم آئی ایس پی آر نے فوری طور پر اس کی تردید کر دی تھی۔

چار دن خبروں میں گرم رہنے والے اس واقعے پر اب مکمل خاموشی چھا چکی ہے۔ جب پاکستان کے دفترِ خارجہ سے اس مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کے ترجمان نفیس زکریا نے ڈی ڈبلیو کو صرف یہ بتایا، ’’ہیلی کاپٹر کے حوالے سے ابھی تک کوئی معلومات نہیں ہیں تاہم ہم افغان حکومت سے مسلسل رابطے میں ہیں اور ہیلی کاپٹر پر سوار تمام افراد کی باحفاظت واپسی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔‘‘

Der Hubschrauber MI 17
روسی ساخت کا MI17 ہیلی کاپڑ پنجاب حکومت کے زیر استعمال تھا جیسے مرمت کے لیے ازبکستان لے جایا جا رہا تھاتصویر: picture alliance/dpa/K. Rostislav

پنجاب حکومت کے ترجمان ضعیم قادری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یرغمالی افغان طالبان کی حراست میں ہیں۔ وفاقی حکومت کابل حکومت سے رابطے میں ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ یرغمالی محفوظ ہیں اور ان کی صحت بھی بہتر ہے اور اُن کو جلد واپس کردیا جائے گا۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں قادری نے کہا، ’’جب ہیلی کاپٹر نے لوگر کے علاقے میں کریش لینڈنگ کی تو لوگ سمجھے کہ یہ کوئی لڑاکا ہیلی کاپٹر ہے۔ جس علاقے میں یہ لینڈنگ ہوئی وہ افغان طالبان کے حلقہ اثر میں آتا ہے۔ ہم نے افغان حکومت سے رابطہ کیا ہے اور افغان طالبان سے بھی، براہ راست نہیں، لیکن رابطے ہوئے ہیں اور امید ہے کہ یرغمالی بہ حفاظت واپس آجائیں گے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید