1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایم اے کا طالبعلم ، انتہا پسند؟

فرید اللہ خان، پشاور26 نومبر 2008

تین اطراف سے قبائلی علاقوں سے متصل صوبائی دارالحکومت پشاورمیں امن وامان کی صورتحال تیزی سے بگڑتی جارہی ہے۔ خود کش حملوں اوربم دھماکوں کے بعد سرحد کے دارالحکومت پشاورسمیت کئی دیگرشہرراکٹ حملوں کی زد میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/G2f0
متنی کے علاقے کے منتخب ناظم کے گھر پرعسکریت پسندوں نے حملہ کیا اس حملے میں ناظم سمیت انکی بیوی اور دو رشتہ دار شدید زخمی ہوئے۔ مذکورہ علاقہ کے مسلح لشکر نے عسکریت پسندوں کے خلاف جوابی کاروائی کی جس میں چار افراد ہلاک ہوئےتصویر: AP

سیکیورٹی اہلکارناکافی سہولیات کابہانا بناکر خود کو بری الزمہ قراردیتے ہیں۔ اس حوالے سے کئی مشکوک افراد کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی لیکن ایسے افراد کوکیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے محض دعوے ثابت ہورہے ہیں۔ جس کی وجہ سے عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔

حال ہی میں پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے سال آخر کے طالب علم علی رضا کو بھی پولیس نے خود کش بمبار ہونے کے الزام میں گرفتار کیا۔

اگرچہ علی رضا پولیس سٹیشنوں میں لگے ان کی تصاویر اور اشتہاری قراردئیے جانے کے عمل کو اپنے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں تاہم انہوں نے شعبہ صحافت میں مخلوط تعلیم کو حکومت اور طالبان کے مابین جنگ قراردیا ہے۔

علی رضا کے بارے میں شعبہ صحافت کے طلباء وطالبات کا کہنا ہے کہ وہ انتہائی ذہین طالب علم ہے تاہم گزشتہ ایک عرصہ سے وہ ڈیپارٹمنٹ سے غائب ہے۔ بعض طالبات کا کہنا ہے کہ وہ دبے الفاظ میں طالبات کوپردہ کرنے کی تلقین کرتے رہے خود کو پولیس کے حوالے کرنے کے بعد علی رضا نے اپنے اوپرخود کش حملہ آور کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرکے پرامن زندگی گذارنے کا خواہشمند ہے۔

علی رضا کا کہنا ہے کہ ان کے بارے میں جو بیانات سامنے آئے ہیں وہ سراسربے بنیاد ہیں اورایک پروپیگنڈہ کے ذریعے انہیں بدنام کیا گیا نہ توان کا کسی مذہبی گروپ سے تعلق ہے اورنہ ہی ان کی کسی کے ساتھ دشمنی ہے۔ تاہم علی رضا نے یہ اقرار کیا کہ پشاوریونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں مخلوط تعلیم کا طریقہ ہمارے مذہب اور روایات کے خلاف ہے۔ جس طرح اسلامی ممالک میں خواتین اور مردوں کیلئے الگ الگ تعلیمی ادارے بنائے گئے ہیں اسی طرز پر یہاں بھی مخلوط تعلیم کی بجائے مردوں اورخواتین کیلئے الگ الگ تعلیمی ادارے ہونے چاہئیں۔

علی رضا کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان اور تحریک طالبان کے درمیان اسی ایشو پراختلافات ہیں۔ پشاور پولیس کے سربراہ ڈاکٹر سلیمان کا کہنا ہے : ’’علی رضا ہونہار طالب علم ہے۔ ابھی وہ ماضی کو بھلا کرنئی زندگی شروع کرنے کے خواہاں ہیں اس نے خود ہی پولیس سے رابطہ کیا۔ یہ چاہتا ہے کہ ان کے بارے میں جو بھی غلط فہمیاں ہیں وہ ختم ہوجائیں یہ چند گھنٹے قبل ہی مجھ سے ملے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اگریہ ماضی کو بھلانا چاہتے ہیں تو ہم بھی ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ان کے ادھورے تعلیمی سلسلے کو پھر سے بحال کرنے میں تعاون کریں گے۔‘‘

چار نومبرکو پشاورمیں انٹیلی جنس اداروں نے پولیس کو شہر میں تین خود کش حملہ آوروں کے داخلے تفصیلات فراہم کیں جن میں کراچی کے نعیم، مومند ایجنسی کے عابد اورشعبہ صحافت پشاوریونیورسٹی کے طالب علم علی رضا شامل تھے۔ پولیس نے شہر بھرکے تھانوں میں علی رضا کے تصاویر آویزاں کرکے ان کی تلاش شروع کردی۔ علی رضا نے ازخود پولیس سے رابطہ کیا اوریونیورسٹی ٹاؤن پولیس نے انہیں حراست میں لے کر بعدازاں پشاورپولیس کے سربراہ سے ملوایا۔ علی رضا نے تو خود کو پولیس کے حوالے کردیا لیکن باقی دو کے بارے میں ابھی تک پولیس اورقانون نافذ کرنیوالے اداروں کو کچھ پتہ نہیں۔

بدامنی کے وارداتوں میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ قانون نافذ کرنےوالے اداروں کو بے بس کیا جا چکا ہے۔ گرفتار کیے جانے والے افراد کے بارے میں تفتیش سردمہری کا شکار ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے پورا صوبہ اورقبائلی علاقے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں اس دوران جہاں عدلیہ کا بحران رہا وہاں گرفتار ہونےوالے افراد کے کیسز بھی تعطل کا شکار رہے اس بحران کی وجہ سے انصاف میں تاخیر ہوئی۔ جس پر بدامنی بڑھتی گئی۔ پشاور، بنوں، درہ آدم خیل سمیت کئی دیگر اضلا ع میں راکٹ حملے کیے گئے۔

پشاورمیں سات راکٹ رہائشی علاقوں پر داغے گئے جبکہ متنی کے علاقے کے منتخب ناظم کے گھر پرعسکریت پسندوں نے حملہ کیا اس حملے میں ناظم سمیت انکی بیوی اور دو رشتہ دار شدید زخمی ہوئے۔ مذکورہ علاقہ کے مسلح لشکر نے عسکریت پسندوں کے خلاف جوابی کاروائی کی جس میں چار افراد ہلاک ہوئے جن کی نعشیں عسکریت پسند ساتھ اٹھا کرلے گئے۔ اسی طرح درہ آدم خیل میں سیکورٹی چیک پوسٹ کو چارراکٹوں سے نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ بنوں کے پولیس سٹیشن پر بھی دوراکٹ داغے گئے۔

حکمران آئے روز سیکورٹی انتظامات سخت کرنے کے دعوے کرتے ہیں لیکن سیکورٹی کا یہ حال ہے کہ عسکریت پسند ان کا دائرہ توڑتے ہوئے پشاور کے مختلف علاقوں میں کاروائیاں کرکے غائب ہوجاتے ہیں۔ پشاور میں واقع باجوڑ کے متاثرین کیلئے بنائے گئے کیمپس اور بورڈ بازار میں کاروائیوں کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ یہ سلسلہ اندرون شہر تک پہنچ چکا ہے تاہم اس کے باوجود صوبائی حکومت اور سیکورٹی اہلکار کامیابی کے دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔