1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

این آر او مقدمہ، سماعت دس جون تک ملتوی

25 مئی 2010

پاکستان میں سپریم کورٹ نے حکو مت سے این آر او پر عملدرآمد کے حوالے سے جامع جواب طلب کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت 10 جون تک ملتوی کر دی ۔

https://p.dw.com/p/NWMv
تصویر: Abdul Sabooh

وفاقی وزیر قانون بابر اعوان عدالتی حکم پر منگل کوعدالت عظمٰی میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت وزیر قانون نے عدالت کو بتایا کہ حکومت عدلیہ کا احترام کرتی ہے اور اسی سبب این آر او سے متعلق10 عدالتی احکامات میں سے 9 پر عملدرآمد کرا دیا ہے تاہم سوئس مقدمات دوبارہ کھولنے میں رولز آف بزنس رکاوٹ ہیں۔ سابق اٹارنی جنرل کو سوئس مقدمات قائم کرنے کا اختیار نہیں تھا، اُنہوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔

قومی مصالحتی آرڈیننس پر عملدرآمد کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کے موقع پر وزیر قانون بابر اعوان نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ سوئس مقدمات دوبارہ کھولے جانے کےلئے متعلقہ حکام کو خط ارسال کرنے سے متعلق سمری وزیراعظم کے پاس ہے۔

دوران سماعت جسٹس جواد خواجہ نے وزیر قانون سے استفسار کیا کہ سوئس بینکوں میں موجود چھ کروڑ ڈالر ملک میں لانے کے لئے حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں۔ اس پر بابر اعوان نے کہا کہ اس معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور یہ کہ ابھی اس رقم کی تصدیق ہونا باقی ہے کہ اصل رقم کتنی ہے۔

عدالت نے بابر اعوان کا موقف سننے کے بعد کہا کہ حکومت این آر او فیصلے پر عملدرآمد کے تحت سوئس عدالتوں میں مقدمات دوبارہ کھولنے سے متعلق اپنا تحریری جواب 2ہفتے کے اندرعدالت میں داخل کرائے۔ عدالت میں پیشی کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بابراعوان نے کہا کہ حکومت،عدلیہ کا احترام کرتی ہے اور ملک میں اداروں کے مابین تصادم کا کوئی خطرہ نہیں: انہوں نے کہا: ’’اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے تمام افواہیں دم توڑ گئی ہیں۔ پاکستان میں اداروں کے درمیان تصادم کی صورتحال نہ پہلے کبھی تھی اور نہ انشاءاللہ آئندہ کبھی ہوگی۔‘‘

Iftikhar Chaudhry
چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدریتصویر: picture-alliance/ dpa

سیاسی تجزیہ نگار نجم سیٹھی کے مطابق منگل کو عدالتی کارروائی اور اس دوران حکومتی رویے نے ثابت کیا ہے کہ دونوں جانب سے سنجیدگی اور دانشمندگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔

نجم سیٹھی نے کہا: ’’ یہ سب جانتے ہیں کہ صورتحال بڑے تصادم کی شکل اختیار کر گئی تھی جس سے ایسے حالات پیدا ہو سکتے تھے جس میں نہ سپریم کورٹ بچ سکتی تھی اور نہ ہی حکومت کے بچنے کا کوئی امکان تھا۔ جس انداز میں یہ مسائل بڑھ رہے تھے اور بعض ذرائع ابلاغ کے نمائندے بھی ان کو ہوا دینے میں مصروف تھے میرے خیال میں آج زبردست طریقے سے معاملہ طے پایا جس میں حکومت کو بھی باقاعدہ اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع ملا ہے اور سپریم کورٹ پر بڑھتا ہوا دباؤبھی کم ہو جائے گا۔‘‘

البتہ سابق وزیر قانون خالد رانجھا کا کہنا ہے کہ حکومتی رویے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ محض وقت گزاری کر رہی ہے اور سوئس حکام کو صدر کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے کےلئے خط نہیں لکھا جائے گا۔ خالد رانجھا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا کہ حکومت اورعدلیہ کے درمیان پس پردہ کچھ معاملات طے پا گئے ہیں۔

خالد رانجھا نے کہا: ’’تمام معاملات پر جیسے اوس پڑی ہوئی تھی اس سے پہلے بابر اعوان کا رویہ بھی بہت سخت تھا لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پس پردہ معاملات طے پا گئے ہوں۔‘‘

قبل ازیں عدالت نے وزیر قانون بابر اعوان کو آئندہ پیشی سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے مقدمے کی سماعت 10 جون تک ملتوی کر دی ہے۔

شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں