1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک حویلی تھی دل محلے میں۔۔۔

4 اپریل 2022

جہاں دنیا بھر میں مذہبی اور ثقافتی تہواروں پر چیزیں سستی ہوجاتی ہیں، وہیں پاکستان میں ماہ رمضان کے دوران مہنگائی کا عفریت ساری رسیاں تڑا کر آزاد ہو جاتا ہے۔ بشریٰ پاشا کا بلاگ

https://p.dw.com/p/49Pw1
ڈی ڈبلیو بلاگر بشریٰ پاشا
مصنفہ: بشریٰ پاشاتصویر: privat

آپ کچھ بھی کہہ لیجیے جو مزہ بچپن کے روزوں میں تھا اس کا تو کوئی مول تھا ہی نہیں۔ اللہ کو خوش کرنے کا ایک جذبہ تھا جس کے لیے ہم نہ جانے کیا کیا جتن کرتے تھے۔ دادی اور پھوپھی سے  منتیں کر کے ایک پرانی ساڑھی مانگی جاتی تھی۔ ہمارے گھر کا سب سے بڑا کمرا ہمارا مہمان خانہ ہوا کرتا تھا۔ ساڑھی اس میں پھیلائی جاتی تھی، پھر ہم اس کو دو ٹکڑوں میں کاٹ دیتے تھے۔ ایک کا دوپٹہ بنتا جس میں ہم پورے ڈوب جاتے۔ مسجد سے رمضان کے چاند کا اعلان ہونے کی دیر ہوتی تھی اور ہم اپنی گڑیاں اور دیگر کھیلنے کا سامان ساڑھی کے دوسرے ٹکڑے میں کس کے لپیٹ دیتے  تھے۔ پھر اس لپٹن کو ایک پرانے خالی گھی کے کنستر میں ٹھونس کر بڑی مشکل سے دوچھتی میں چڑھایا جاتا تھا۔ اللہ جانے یہ کر کے ایساکیوں لگتا تھا کہ اللہ  تعالی بہت  خوش ہوں گے۔ یہیں بس نہ ہوتی تھی۔ ثواب کی لالچ نہ جانے کیا کیا کروا لیتی تھی۔ اماں کی کانچ کی چوڑیاں ثواب کی نیت سے گلی میں صدا لگاتی فقیرنی کوانتہائی عقیدت سے دے دی جاتیں تھیں۔ اپنے حصے کے دودھ کے گلاس کو افطار کے بعد گلی اور چوبارے کی بلیوں کو پلایا جاتا۔ دادی اماں جو بڑھاپے کے باعث روزہ رکھنے سے قاصر تھیں، ان کو بلاوجہ  دن میں کئی دفعہ پانی پلایا جاتا۔ اور جو ثواب پانی کی بوتلیں بھر بھر کر فرج میں رکھنے سے ہم نے حاصل کیا اس کا تو کوئی مول نہیں  تھا۔

رمضان کا مزہ صرف سحر و افطار کی بدولت نہیں ہوتا تھا۔ بچپن میں جو لطف  باجماعت تراویح میں آتا تھا  اس جیسا مزہ تو اب کہیں میسر نہیں۔ تیس دن تروایح کے جوش و خروش کا اصل محور اس چھوٹے سے مٹھائی کےڈبے کے گرد گھومتا تھا جو ختمِ  قرآن کے موقع پر بانٹی جاتی تھی۔ بچوں کی ایک بہت بڑی پلٹن اس دن  دوپٹے لپیٹے اور بڑی بڑی ٹوپیاں پہنے اس روز مٹھائی بٹورنے پہنچ جاتی تھی۔ مٹھائی بانٹتے وقت پہلی فوقیت ہمیشہ پوری تراویح پڑھنے والے بچوں کو دی جاتی او ر وہ فخر سے سب کو دکھا دکھا کر کھایا کرتے تھے۔

واقعی کراچی اور رمضان کی رونقیں خوشیوں کا ایک الگ امتزاج ہوتا تھا۔ پاکستان کے کئی شہروں میں روزے رکھے لیکن جو چہل پہل اور اہتمام یہ روشنیوں کا شہر اپنے باسیوں کے لیے لے کر آتا تھا اس جیسی بے نظیر مثال پورے ملک میں اورکہیں نہیں ملتی تھی۔ شہرِ کراچی میں ماہ رمضان بہت دھوم دھام کے ساتھ آتا تھا۔ قریہ قریہ اس کی رونق سے جگمگا اٹھتا تھا۔ مساجد سج جاتیں،  ہرطرف ایک چہل پہل سی شروع ہوجاتی ہے۔ لیکن آج کے دور سے اپنے بچپن کے روزوں کا اگر موازنہ کروں تو شاید گزرا زمانہ زیادہ بہتر تھا۔ لوگوں میں اپنایت تھی اور معاشی تنگی کی یہ حالت نہ تھی جو کہ اب ہے۔

اب بھی پہلے کی طرح  خوانچوں سے لے کر بڑی دکانیں سب کی سب  کھجلے، پھینی اور کھجوروں کے انبار سے لد پھند جاتی ہیں۔ کریانہ فروش  بیسن کا سال کا سب سے زیادہ اور منافع بخش کاروبار  ہیں۔ کبھی کبھار ایسا بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل کراچی کو اس مہینے کے علاوہ کھانے کا کوئی اور موقع نہیں ملنے والا۔ اس لیے جو کچھ کھانے پینے کی رسد اس مہینے استعمال ہونی ہوتی ہے اس کا بندوبست دو ماہ قبل ہی شروع ہو جاتا ہے۔ خواتینِ خانہ رول، سموسوں اور کبابوں کی ایک فوج سے فرج اور فریزر کو آراستہ کر لیتی ہیں۔ سامان کی فہرستیں بنا بنا کر رکھ لی جاتی ہیں۔ جہاں جہاں سے سستے سامان ملنے کی خبر آتی ہے، سب اسی سمت دوڑ لگا  دیتے ہیں۔ بازار میں جدھر نظر دوڑائیں  کھوئے سے کھوا چھلتا نظر آتا ہے۔ بازار سے عام استعمال کی اشیا کی خریداری گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو جاتی ہے۔ جہاں  دنیا بھر میں مذہبی اور ثقافتی تہواروں پر  چیزیں سستی ہوجاتی ہیں وہیں پاکستان  میں حالات اس کے برعکس ہوجاتے ہیں۔ مہنگائی کا عفریت ساری رسیاں تڑا کر آزاد ہو جاتا ہے۔ کپڑے سے لے کر جوتے  اور  کیلے سے لے کر ٹماٹر تک، ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کر تی نظر آتی ہے۔ ہم  نماز  روزہ  کر کے،  ناجائز منافع خوری کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ غرض یہ کہ ناجائز منافع خوری اور بسیار خوری اس مقدس مہینے میں ہمارا نصب العین ہوجاتا ہے۔

آج سے ایک دہائی پہلے تک بھی لوگوں میں اپنائیت اور محبت کا معیار شاید تھوڑا اور  مضبوط وبلند تھا۔ پاس پڑوس کے لوگ بھی ایک دوسرے سے واقعی دل سے محبت کرتے تھے۔ شام ہوتے ہی آپ کو محلے کے بچے گھر گھر خوبصورت خوان پوش سے سینیاں سجائے افطاری پہنچانے پر لگ جاتے۔ آپ سمجھ لیجیے گھر کے دسترخوان کی زینت  صرف اپنے گھرکے بنے کھانوں سے نہیں بلکہ اس پر چار چاند محلے سے آئے پکوانوں سے ہی لگتے۔ گویا پڑوسی محض آپ کے محلے دار نہیں بلکہ آپ کے رشتہ داروں سے بڑھ  کے آپ کے اپنے ہوتے۔ اسی طرح رمضان محض ایک مذہبی فریضہ نہیں بلکہ ایک ایسا مقدس مہینہ ہوتا جو ایک منفرد ثقافت اپنے اندر سموئے رکھتا۔ جس کی آمد کا سب کو انتظار رہتا۔ جس کے آنے سے گھر گھر رونقیں اور خوشیاں جھوم جھوم کر آتیں اور ایک بار پھر ہمارے سماجی رابطے اپنے اطراف کے لوگوں  کے ساتھ مستحکم ہوجاتے ہیں۔ 

میری دعا ہے کہ میرے شہر کی رونقیں پھر سے بحال ہو جائیں اور ہم امسال بھی رمضان روایتی جوش و خروش کے ساتھ گزاریں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں