1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونانی حراستی مرکز میں قید پاکستانی تارکین وطن کی صورت حال

شمشیر حیدر
5 اکتوبر 2017

یونانی شہر کورنتھوس میں ایک حراستی مرکز کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جہاں غیر قانونی طور پر یونان آنے والے تارکین وطن کو ان کی ملک بدری سے قبل انتظامی حراست رکھا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2lGxu
Griechenland Lebos Migranten aus Pakistan Rückführung Türkei
تصویر: DW/R. Shirmohammadi

یونانی حراستی مرکز میں قید پاکستانیوں کی صورت حال

کورنتھوس کے اس حراستی مرکز میں موجود پاکستانی شہریوں نے دوران قید اپنی صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے ڈی ڈبلیو سے رابطہ بھی کیا۔
اسی کیمپ میں موجود ایک پاکستانی تارک وطن عامر بٹ کے مطابق اس یونانی حراستی مرکز میں کم از کم پانچ سو سے زائد غیر قانونی تارکین وطن کو قید میں رکھا گیا ہے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اس بات کی تصدیق کورنتھوس میں موجود عزیر نامی ایک اور پاکستانی تارک وطن نے بھی کی۔

یورپی پارلیمان کے ارکان پناہ کے مشترکہ قوانین بنانے پر متفق

اٹلی پہنچنے کی کوشش میں پندرہ ہزار تارکین وطن ہلاک ہوئے
عامر بٹ کے مطابق وہ رواں برس مئی سے اس حراستی مرکز میں قید ہے۔ بٹ نے ڈی ڈبلیو کو کیمپ کی صورت حال سے متعلق متعدد تصاویر اور ویڈیو بھی بھیجی ہیں جن میں وہاں موجود پاکستانی تارکین وطن حراستی مرکز میں رہائش، خوراک اور صحت کی ناکافی سہولیات کی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک تارک وطن کا کہنا تھا، ’’یونان آنے والے ہم جیسے تارکین وطن اپنے خاندان کی مدد کرنے کے لیے محنت مزدوری کی خاطر ان راستوں پر نکلتے ہیں۔ ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم یہاں غیر قانونی طور پر آئے ہیں۔ لیکن اس جرم کی ہمیں بڑی قیمت چکانا پڑ رہی ہے اور پاکستانی تارکین وطن کو یہاں کئی مہینوں تک قید رکھا جاتا ہے۔‘‘
اسی حراستی مرکز میں قید غیر قانونی طور پر یونان آنے والے ایک اور پاکستانی تارک وطن کا دعویٰ تھا کہ کیمپ کے حکام ان کی اپیلوں اور بھوک ہڑتال کے باجود انہیں بنیادی سہولیات بھی فراہم نہیں کرتے۔

یونان میں پاکستانی تارکین وطن سے متعلق اعداد و شمار
یونانی اسائلم سروس کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سن 2013 کے آغاز سے لے کر اس برس اگست کے اختتام تک یونان میں حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والوں کی مجموعی تعداد قریب ایک لاکھ سولہ ہزار بنتی ہے۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے قریب پندرہ ہزار تارکین وطن نے یونان میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ پاکستانی درخواست گزاروں کی تعداد شامی باشندوں کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ اس برس کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران دس ہزار شامی، چھ ہزار پاکستانی اور پانچ ہزار افغان شہریوں نے یونان میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔
دیگر یورپی ممالک کی طرح یونان میں بھی پاکستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو سیاسی پناہ دیے جانے کی شرح انتہائی کم ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران یونان میں پاکستانی شہریوں کو پناہ دیے جانے کی شرح محض 2.2 فیصد بنتی ہے۔ اس کے برعکس تقریبا سبھی شامی مہاجرین اور قریب پینسٹھ فیصد افغان تارکین وطن کو یونان میں پناہ دی گئی۔
ابتدائی فیصلوں کے خلاف اپیلیں کرنے والوں میں بھی پاکستانی تارکین وطن سر فہرست ہیں اور گزشتہ تین برسوں کے دوران چھ ہزار آٹھ سو پاکستانی شہریوں نے یونان میں پناہ نہ دیے جانے کے ابتدائی فیصلوں کے خلاف حکام کو اپنی اپیلیں جمع کرائیں۔
یہ ویڈیو کورنتھوس حراستی مرکز میں موجود پاکستانی تارکین وطن کی جانب سے بھیجی گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو اس مواد کے مصدقہ ہونے کی تصدیق نہیں کر سکتا۔ 

جرمنی میں پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں میں کتنا وقت لگتا ہے؟

جرمنی سے مہاجرین کو ملک بدر کر کے یونان بھیجا جائے گا، یونان

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے