1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بابری مسجد رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش، قصواروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں!

24 نومبر 2009

ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں یہ رپورٹ پیش ہونے کے موقع پر اپوزیشن جماعت ’بی جے پی‘ اور سیکولر جماعتوں کے اراکین کے مابین ہاتھا پائی بھی ہوئی۔

https://p.dw.com/p/KeTL
شدت پسند ہندو جماعتوں کے کارکنوں نے سن 1992ء میں بابری مسجد گرائی تھی، جس کے بعد بھارت میں ہندو مسلم فسادات میں تقریباً دو ہزار افراد مارے گئےتصویر: dpa - Bildarchiv

بھارتی حکومت نے منگل چوبیس نومبر کو بابری مسجد سانحہ پر عدالتی کمیشن کی رپورٹ باقاعدہ طور پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں پیش کردی۔

Der BJP-Politiker L.K.advani wird begrüßt von dem Vorsitzenden der Shiromani Akali Dal und Punjab Prakash Singh Badal
رپورٹ میں سخت گیر موقف کے حامل بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر لال کرشن اڈوانی سمیت اس جماعت کے کئی اراکین کو بابری مسجد کے انہدام کے لئے ذمہ دار قرار دیاگیا ہےتصویر: UNI

جسٹس من موہن سنگھ لبراہن کمیشن کی رپورٹ کے افشاء ہونے کے باعث حزب اختلا ف کی جماعتوں کے سخت دباﺅ میں آئی مرکزی حکومت نے آناً فاناً ’ایکشن ٹیکن‘ یا عمل آوری رپورٹ کے ساتھ ایک ہزار صفحات پر مشتمل عدالتی رپورٹ کو ایوان میں پیش کردیا۔ اس رپورٹ میں بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت دیگر ہندو قوم پرست جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کے اڑسٹھ رہنماوٴں کو بابری مسجد کے انہدام کے لئے قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔ تا ہم حکومت کی تیرہ صفحات پر مشتمل رپورٹ میں سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی سمیت کسی بھی اہم رہنما کا تذکرہ نہیں ہے۔ یہ رپورٹ پیش کرتے وقت دونوں ایوانوں کی کارروائی ہنگاموں کی نذر ہوگئی، با لخصوص راجیہ سبھا میں، بی جے پی کے اراکین کی طرف سے ’جے شری رام‘ کے نعرے بلند کرنے پر سماج وادی پارٹی اور دیگر اراکین نے سخت اعتراض کیا۔ اس کے بعد معاملہ ہاتھا پائی کی شکل اختیار کرگیا۔

بی جے پی کے رکن پارلیمان بلبیر پونج نے نعرے بازی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ایوان میں اس سے پہلے بھی نعرے لگتے رہے ہیں اور رام کا نعرہ لگانا ہر بھارتی شہری کا حق ہے۔’’مگر یہ جگہ دھکا مّکے کی نہیں ہے۔‘‘

سماج وادی پارٹی کے رکن امر سنگھ نے اس واقعے پر ایوان سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ بی جے پی اراکین کو سمجھانے کے لئے ان کے پاس گئے تھے لیکن انہوں نے ان پر ہی حملہ کردیا۔ بی جے پی کی نعرہ بازی کے جواب میں مسلم اراکین نے بھی نعرے بازی شروع کردی تھی۔ لیکن جلد ہی ایوان میں نظم قائم ہوگیا۔

Untersuchung Babri Moschee Bericht
جسٹس من موہن سنگھ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ اور وزیر داخلہ پی چدم برم کو بابری مسجد کی رپورٹ پیش کرتے ہوئےتصویر: UNI

جسٹس من موہن سنگھ لبرہان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’سیاست میں مذہب کی آمیزش ایک خطرناک رجحان ہے اور اس کے تدارک کے لئے ایک مثالی قانون بنایا جانا چاہیے۔‘‘

وفاقی حکومت نے کہا کہ وہ رائے بریلی اور لکھنو کی خصو صی عدالتوں میں چل رہے مقدمات میں تیزی لا ئی گی اور فرقہ وارانہ تشّدد کے سدباب کے لئے ایک خصوصی قانون وضع کرے گی۔

Amar Singh Indien Samajwadi Partei
سماج وادی پارٹی کے لیڈر امر سنگھ نے پارلیمان میں جے شری رام کے نعروں پر اعتراض کیاتصویر: AP

بابری مسجد رپورٹ میں میڈیا کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنا یا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ بھارت میں ’زرد صحافت‘ پر قدغن لگانے کے لئے کوئی موثر ادارہ موجود نہیں ہے۔

حکومت نے ان سفارشات سے اتفاق کرتے ہوئے ان پر عمل آوری کا وعدہ کیا۔

ایک رکنی کمیشن نے مسلم قیادت کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ وہ مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کرنے اور بابری مسجد کا تحفظ کر نے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ اس مشاہدے پر ’آل انڈیا بابری مسجد ایکشن کمیٹی‘ کے اُس وقت کے ترجمان اور موجودہ صدر جاوید حبیب نے کہا کہ مسلمانوں نے ’نیشنل انٹیگریشن کونسل‘، پارلیمنٹ، سیکولر فورسز اور حکومت وقت کے وعدوں پر اعتماد کیا۔’’مسلمانوں کے پاس قوت نافذہ نہیں تھی۔ آل انڈیا بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا یہ کام نہیں تھا کہ وہ ایودھیا جاکر مسجد کو بچاتی۔‘‘

جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ ملک میں فرقہ وارانہ ماحول کو بہتر کرنے کے لئے کیا مسلمان اس سانحہ کو فراموش نہیں کر سکتے؟ جاوید حبیب نے کہا کہ بھارت کی تاریخ میں کئی بڑے واقعات گزرے ہیں۔’’پہلا سن 1857 کی جنگ آزاد ی، دوسرا سن 1920میں گاندھی جی کی قیادت میں کانگریس نے نیا آئین دیا اور ’سوراج‘ کا مطالبہ کیا، تیسرا سن 1947 میں ملک کی آزادی،چوتھا سن 1971میں بنگلہ دیش کا وجود اور پانچواں سن 1984میں امرتسر کے ’گولڈن ٹیمپل‘ پر حملہ اور پھر سن 1992میں بابری مسجد کا انہدام، یہ دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔‘‘ انہوں نے جسٹس لبرہان کے مشاہدات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ آل انڈیا بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے اس وقت کے کنوینر کو بلاتے اور مسلمانوں کا نقطء نظر معلوم کرتے۔’’میری معلومات کے مطابق جسٹس لبرہان نے کسی کو نہیں بلایا، مجھے بھی نہیں۔ انہوں نے مسلم رہنماﺅں سے ملے بغیر ہی یکطرفہ ایسے ریمارکس پاس کردئے۔‘‘

دریں اثناء مرکزی حکومت نے فرقہ وارانہ فسادات کے انسداد کے لئے خصوصی قانون بنانے کا اعلان کیا۔ ایکشن رپورٹ پر ہورہی تنقید کے دفاع میں وزیر قانون ویرپّا موئیلی نے کہا کہ یہ عجلت میں تیار کی گئی ہے۔ حکومت اس رپورٹ کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد ایک جامع ایکشن رپورٹ تیار کرے گی، اور اس کی سفارشات کو عملی جامہ پہنائے گی۔

واضح رہے کہ جسٹس من موہن سنگھ لبرہان نے بابری مسجد کے انہدام کی رپورٹ تقریباً سترہ برس بعد وفاقی وزارت داخلہ کو سونپ دی۔

رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت: گوہر نذیر گیلانی