1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

باخ اور قوم پرستی

رپورٹ: شامل شمس ، ادارت: گوہر نذیر11 مئی 2009

جرمنی میں ان دنوں یہ بحث کی جا رہی ہے کہ کیا معروف جرمن موسیقار یوہان سیباسطیان باخ قوم پرستانہ رجحانات رکھتے تھے؟

https://p.dw.com/p/Ho5v
باخ کے زمانے میں جدید معنوں میں کوئی قوم موجود ہی نہیں تھیتصویر: picture-alliance/dpa

اس حوالے سے جرمن شہر لیوبیک میں ’بلڈ اینڈ اسپرٹ‘ کے عنوان سے ایک نمائش یکم مئی سے جاری ہے جہاں اس موضوع کو بہت باریک بینی کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔

آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کسی فن کار، ادیب، یا شاعر کی وفات کے بعد اس کے کام کو مخصوص نظریات کی حامل سیاسی جماعتیں یا مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں اور افراد اپنے نظریات کی ترویج کے لیے استعمال کرپاتے ہیں۔ کیوں کہ ایسا صرف باخ کے ساتھ ہی نہیں ہوا۔ پاکستان میں اس کی ایک بہت عمدہ مثال ڈاکٹر محمّد اقبال کی ہے جن کی شاعری کو دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور کی طرح استعمال کیا۔

Komposition von Johann Sebastian Bach
تصویر: AP/Bach-Archiv Leipzig

یوہان سیباسطیان باخ کا شمار اٹھارویں صدی کے عظیم ترین جرمن موسیقاروں میں ہوتا ہے۔ بعد میں آنے والے بیتھوفن اور موٹزارٹ جیسے موسیقاروں نے باخ کے کام کی اہمیت کو تسلیم کیا اور ان کو ایک استاد کا درجہ دیا۔ باخ اپنی کلیسائی موسیقی کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ مگر کیا وہ قوم پرستانہ رجحانات بھی رکھتے تھے؟ کیا ان کے نظریات یہودیت مخالف تھے؟ ایسے کہ جن کو نازی اپنے لیے استعمال کرسکتے تھے؟ انہی سوالوں کے جواب جاننے کے لیے ہم نے رابطہ کیا ہوائی یونیورسٹی میں ایشیئن اسٹڈیز کے سربراہ اور ایتھنو میوزکولوجسٹ پروفیسر رکارڈو ٹری ملیوس سے۔

’یہ بات کہنا بہت مشکل ہے کہ یوہان سیباسطیان باخ ایک قوم پرست تھے کیوں کہ ان کے زمانے میں جدید معنوں میں کوئی قوم موجود ہی نہیں تھی۔ باخ کو اپنے علاقے سے محبّت کرنے والا شخص کہا جاسکتا ہے۔ سیاسی معنوں میں قوم پرستی باخ کے زمانے میں موجود نہیں تھی لہٰذا یہ غیر ضروری بات ہے‘ پروفیسر رکارڈو۔‘

Johann Sebastian Bach Denkmal in Leipzig
لائپزگ میں باخ کا ایک مجسمہتصویر: AP


تو پھر لیوبیک میں ہونے والی اس بحث کا مقصد کیا ہے؟ کیا نازیوں نے یوہان سیابسطین کی موسیقی یا ان کے خیالات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا؟

'’یہ ممکن ضرور ہے تاہم نازیوں کے دور میں جس موسیقار کو سب سے زیادہ احترام سے دیکھا گیا وہ واگنر تھے۔ واگنر واضح طور پر یہودیت مخالف تھے اور انہوں نے اس حوالے سے بہت کچھ لکھا بھی ہے۔ مگر میں نہیں جانتا کہ باخ کو نازی خاص طور سے پسند کرتے تھے‘، پروفیسر رکارڈو۔‘

پروفیسر رکارڈو باخ کے کام کو کس طرح دیکھتے ہیں۔

Richard Wagner
جس موسیقار کو نازی دور میں سب سے زیادہ احترام سے دیکھا گیا وہ واگنر تھےتصویر: dpa

’باخ کا کام خطّے کے حوالے سے تھا۔ اگر آپ ان کی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ وہ مشرقی جرمنی سے بہت زیادہ باہر نہیں نکلے۔ تاہم وہ اپنی موسیقی کے اعتبار سے بہت زیادہ بین الاقوامی تھے۔ انہوں نے اطالوی اور فرانسیسی موسیقی سے استفادہ کیا اور وہ جرمن علاقوں سے باہر کی موسیقی کے بارے میں بھی معلومات رکھتے تھے‘

کیا باخ کے علاوہ بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں جہاں کسی موسیقار کے کام یا اس کے نظریات کو ایک مخصوص سیاسی گروہ نے استعمال کیا ہو؟ پروفیسر رکارڈو اس بابت کہتے ہیں:

'’فن کاروں اور موسیقاروں کے کام کو سیاسی اور قوم پرست عناصر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں لیکن ایسا ہمیشہ فن کاروں کے گزر جانے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ امریکہ میں اس کی ایک بہت اچھی مثال بروس اسپرنگسٹین کی ہے جس نے ’بارن ان دا یو ایس اے‘ لکھا اور جو کہ امریکہ کی بین الاقوامی جارحیت کے حوالے سے خاصا تنقیدی کام تھا مگر رپبلکن پارٹی کے مطابق یہ بہت ہی محبِ وطن گیت تھا اور انہوں نے اس کو سابق صدر ریگن کی انتخابی مہم کے دوران استعمال بھی کیا‘