1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

باویریا: مہاجرین پر ریپ کے مقدمات میں اضافہ، حقیقت کیا ہے؟

شمشیر حیدر Maximiliane Koschyk
21 ستمبر 2017

وفاقی جرمن ریاست باویریا کے وزیر داخلہ یوآخم ہرمان کے مطابق صوبے میں ریپ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور خاص طور پر مہاجرین کی جانب سے ریپ کے واقعات میں نوے فیصد تک اضافہ نوٹ کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/2kRv7
Symbolbild Missbrauch Opfer
تصویر: Fotolia/DW

وفاقی جرمن ریاست باویریا کی کابینہ کے کسی اجلاس کا تذکرہ ملکی سطح پر کم ہی ہوتا ہے۔ تاہم بارہ ستمبر کے روز وزیر داخلہ یوآخم ہرمان نے صوبے میں جرائم سے متعلق تازہ اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے بتایا کہ صوبے میں دیگر جرائم میں تو کمی واقع ہوئی لیکن ریپ کے واقعات میں اضافہ ہوا۔

میرکل اور شلس کا ٹی وی مباحثہ، اہم موضوعات کیا تھے؟

اس اجلاس میں بتائی گئی جو بات ملک بھر کے میڈیا نے رپورٹ کی وہ یہ تھی کہ باویریا میں خاص طور پر مہاجرین کی جانب سے کیے گئے ریپ کے واقعات میں 90 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ رواں برس کی پہلی ششماہی میں ریپ کے 126 واقعات میں تارکین وطن ملوث تھے جب کہ گزشتہ برس کے اسی دورانیے میں ریپ کے 60 کیسوں میں مہاجرین ملوث پائے گئے تھے۔

مہاجرین کی جانب سے کیے گئے ریپ کے واقعات میں اس قدر اضافے کو جرائم پر تحقیق کرنے والے ماہرین ’حیران کن‘ قرار دے رہے ہیں اور کئی کرمنالوجسٹس کا کہنا ہے کہ ان اعداد و شمار پر یقین کرنا مشکل ہے۔ لیکن پھر اس بات میں کتنی حقیقت ہے اور کیا باویریا کے وزیر داخلہ نے کیا غلط اعداد و شمار بیان کیے؟

کیا ریپ کے واقعات واقعی بڑھے ہیں؟

دراصل یہ جرائم سے متعلق پولیس کے جاری کردہ اعداد و شمار ہیں جن میں زیر تفتیش مقدمات کے بارے میں بھی ڈیٹا شامل کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے ریپ کے الزام اور دراصل ریپ کا ملزم ہونے میں بہت فرق ہے جو ان اعداد و شمار کو بیان کرتے وقت ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا تھا۔

اس کے علاوہ بھی ان جرائم سے متعلق کچھ اور حقائق بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہیں۔ جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے سن 2012 میں جاری کیے گئے اعداد و شمار میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں ریپ کے صرف آٹھ فیصد مقدمات ہی پولیس کو رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ کرمنالوجسٹ کرسٹیان فائفر کا کہنا ہے کہ جب ریپ کرنے والا شخص ریپ کا شکار ہونے والی خاتون کا جاننے والا ہو تو ایسے کیسوں کو پولیس میں رپورٹ کیے جانے کے امکانات کافی کم ہوتے ہیں۔

اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق

کسی اجنبی شخص کے ہاتھوں ریپ کا شکار ہونے کی صورت میں پولیس میں مقدمہ درج کرائے جانے کا تناسب کافی زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ مہاجرین کے کردہ ریپ کے واقعات مقامی لوگوں کی نسبت زیادہ تعداد میں پولیس کو رپورٹ کیے جاتے ہیں۔

ماہر قانون کؤلبیل کا کہنا ہے کہ جرمنی میں سن 2015 میں ریپ سے متعلق نئے قوانین متعارف کرائے گئے تھے جس کے بعد ملک بھر میں ریپ سے متعلق درج کرائے جانے والے مقدمات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے صرف یہ مراد نہیں لیا جا سکتا کہ ریپ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اس بارے میں درج کرائے جانے والے مقدمات کی شرح بڑھی ہے، جو کہ ایک خوش آئند بات بھی ہے۔

اعداد و شمار کا گورکھ دھندا

ڈورٹمنڈ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی سے وابستہ شماریات کے ماہر والٹر کریمر کا کہنا ہے کہ مہاجرین اور ریپ سے متعلق اعداد و شمار کو بیان کرنے اور ان کی تشہیر کرنے میں جو طریقہ اختیار کیا گیا اس میں حقیقی صورت حال کی عکاسی نہیں ہوتی۔ لیکن پھر یہ اعداد و شمار اتنے یقینی کیوں دکھائی دیتے ہیں؟ کریمر کے مطابق جرائم سے متعلق ان اعداد و شمار کو بیان کرتے وقت یہ بات ملحوظ خاطر رکھی گئی ہے کہ صرف ایک خاص پہلو کو ہی نمایاں کیا جائے۔

فائفر کا بھی کہنا ہے کہ عام طور پر جرائم سے متعلق نصف برس کے اعداد وشمار جاری اس لیے نہیں کیے جاتے کیوں کہ ان کے قابل بھروسہ ہونے کے امکانات نسبتاﹰ کم ہوتے ہیں۔ لیکن کیوں کہ اس وقت جرمنی میں انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں اس لیے مہاجرین اور ریپ سے متعلق پہلو کو نمایاں کر کے سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔

باویریا میں سی ڈی یو کی اتحادی جماعت سی ایس یو برسر اقتدار ہے۔ سی ایس یو مہاجرین کے موضوع پر چانسلر میرکل کی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتی رہی ہے اور انتخابات میں بھی یہ جماعت اس موضوع پر اپنی پوزیشن واضح طور پر عوام کے سامنے رکھنا چاہتی ہے۔ اعداد و شمار کی سطحی تشریح گمراہ کن ہوتی ہے لیکن سی ایس یو نے دانستہ طور پر ایسا کرتے ہوئے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔

مہاجرین کا بحران، یورپی سیاست کیا رنگ اختیار کر رہی ہے؟

مہاجرین کے لیے روزگار کے مواقع کم کیوں ہیں؟