1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

باچا خان یونیورسٹی حملہ، سہولت کار گرفتار

فرید اللہ خان, پشاور23 جنوری 2016

پاکستانی سکیورٹی اداروں نے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں واقع باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے چار معاونیں کو گرفتار کر کے میڈیا کے سامنے پیش کردیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hivw
تصویر: DW/F. U. Khan

پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ کے مطابق، ’’مجموعی طور چار سہولت کاروں کو گرفتار کرلیا ہے جن میں نور اللہ، عادل (مستری)، ابراہیم اور ریاض شامل ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حملے کی منصوبہ بندی اور حملہ آوروں کی تربیت افغانستان میں کی گئی تھی جبکہ حملہ اور طورخم کے راستے پاکستان آئے تھے، جنہیں ایک سہولت کار نے عام ٹرانسپورٹ کے ذریعے مردان پہنچایا۔ مردان میں دو سہولت کاروں ریاض اور عادل نے انہیں مختلف مقامات پر ٹہرایا تھا۔

عاصم باجوہ کا مزید کہنا تھا، ’’ان سہولت کاروں نے دہشت گردوں کے لیے درہ آدم خیل سے اسلحہ حاصل کیا تھا۔ گرفتار شدہ افراد کو میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں افغانستان ملوث ہے بلکہ تمام معلومات افغان صدر کے ساتھ شیئر کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ اس سلسلے میں اقدامات اٹھائیں۔

اس موقع پر افغانستان کے ایک فون نمبر سے کی جانے والی کالز کی تفصیلات بتاتے ہوئے میجر جنرل عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ اس دہشت گردی کے واقعے کے دوران دس کالیں ہوئیں ہیں جن کا ریکارڈ ان کے پاس موجود ہے۔ چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ایک کی شناخت ہوئی ہے جس کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے جبکہ باقی کے بارے می‍ں تحقیقات جاری ہی‍ں۔

باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردانہ حملے کے دوران 21 افراد ہلاک ہوئے تھے
باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردانہ حملے کے دوران 21 افراد ہلاک ہوئے تھےتصویر: DW/F. U. Khan

پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق، ’’عادل نامی سہولت کار پیشے کے لحاظ سے مستری ہے جو باچاخان یونیورسٹی میں کام کرچکا ہے اور اس نے نقشے کی مدد سے دہشت گردوں کو تمام راستوں کے بارے میں اگاہی دی تھی جبکہ نوراللہ نامی سہولت کار نے دہشت گردوں کو باچا خان یونیورسٹی تک رکشے میں پہنچایا تھا۔‘‘

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حملے غیر ملکی تعاون کے بغیر ممکن نہیں لیکن دفاعی تجزیہ کار اور فاٹا کے سابق سیکرٹر ی بریگیڈیئر (ر) محمو د شاہ کا کہنا ہے، ’’اس میں شک نہیں کہ افغانستان میں موجود لوگوں کو کوئی نہ کوئی تو فنڈنگ کررہا ہے لیکن ہمیں کسی پر انگلی اٹھانے کی بجائے اپنے گھر کو درست کرنا ہوگا۔ ہمیں اندرونی اسٹرکچر کو مضبو ط کرنے کی ضرورت ہے۔ آپریشن ضرب عضب سے ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے، اس سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔

محمود شاہ کا مزید کہنا تھا کہ سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے اقدمات کریں۔

افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جائے، پرویز خٹک

ادھر وزیر اعلی‌ٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے، ’’ہم لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ وفاقی حکومت پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے لیے لائحہ عمل کا اعلان کرے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ پہلے بھی وفاق سے سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے کہا تھا، اب پھر سے یہی مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سرحدیں محفوظ ہوں گی تو شہر محفوظ ہوں گے جو بھی ملک یہاں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے میں ملوث ہے اور اگر پاکستان کے پاس اسکے ثبوت ہیں تو کھل کر ان سے بات کی جائے اور ان ثبوتوں کو عالمی اداروں کے ساتھ شیئر کیا جائے اور ایسے لوگوں کے خلاف سخت اقدمات اٹھائے جائیں۔ ‘‘

بعض لوگ حکومت کو پاک افغان سرحد سیل کرنے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں لیکن تجزیہ نگار اور افغان امور کے ماہر رستم شاہ مومند پاک افغان سرحد سیل کرنے کے مخالف ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’پاکستان اور افغانستان کی چوبیس سو کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ ایسے میں اسے سیل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ پاکستان میں پندرہ لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ اور پندرہ لاکھ سے زیادہ غیر قانونی طور پر افغان، رہائش پذیر ہیں۔ جبکہ ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی بھی افغانستان میں کام کررہے ہیں ایسے میں بارڈر سیل کرنے کے منفی اثرات کوبھی سامنے رکھنا ہو گا۔‘‘