1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحرین میں شیعہ مظاہروں کا پھر سے آغاز

21 دسمبر 2011

خلیجی ریاست بحرین میں رواں برس کے شروع میں شیعہ اکثریتی آبادی کی تحریک کرش کر دی گئی تھی۔ اب ایک بار پھر شیعہ آبادی کی جانب سے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/13X3f
تصویر: picture alliance/dpa

نو ماہ قبل بحرین کی اکثریتی آبادی کی جانب سے سیاسی اصلاحات کی تحریک کو حکومت نے قریبی عرب ریاستوں کے فوجی تعاون سے سختی کے ساتھ کرش کردیا تھا اور اب سال کے اختتام پر ایک بار پھر شیعہ آبادی کے مظاہرے شروع ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اسی سال کی سابقہ تحریک کے دوران حراست میں لیے گئے افراد کے مقدموں کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔

گزشتہ کچھ دنوں سے شیعہ مظاہرین اُس مرکزی شاہراہ پر جمع ہو رہے ہیں جو بدایہ ہائی وے کہلاتی ہے اور یہ دارالحکومت مناما کے سابقہ پرل اسکوائر تک جاتی ہے۔ مارچ کی تحریک کو کرش کرنے کے بعد حکومت نے پرل اسکوائر کو مسمار کر کے اسے اب ایک انٹرچینج میں تبدیل کر کے اس کا نام الفاروق رکھ دیا ہے۔ مارچ کی تحریک کے دوران شیعہ مظاہرین نے اس چوک میں ڈیرے ڈال لیے تھے۔

بحرین کی شیعہ آبادی کی مرکزی جماعت الوفاق پارٹی اپنے سابقہ مؤقف کو دہراتی ہے کہ حکومت کو برخواست کرنے کے بعد سارے بحرین میں آبادی کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی جائیں اور اس کے بعد پارلیمانی الیکشن کا انعقاد کروایا جائے۔ دوسری جانب بحرین کی اقلیت سنی آبادی کے عمائدین کا خیال ہے کہ شیعہ آبادی بحرین کے امن کو ایک بار پھر خراب کرنے کے درپے ہے اور ان کا یہ عمل اس ریاست میں عدم استحکام کا سبب بنے گا۔

Flash-Galerie Arabischer Frühling Jahresrückblick Bahrain
نومبر سن 2011 میں حکومت مخالف شیعہ خواتین کا مظاہرہتصویر: picture-alliance/dpa

انسانی حقوق کے ایک بلاگر یوسف المحافضہ کا کہنا ہے کہ بدایہ ہائی وے پر قبضہ اس سلسلے کی ابتدا ہے جس کا انجام پرل اسکوائر پر قبضہ ہے۔ یوسف کے مطابق یہ شیعہ تحریک کا ایک بار پھر سے احیاء ہے۔ بحرینی حکام نے ایک خاتون شیعہ بلاگر زینب الخواجہ کو ضمانت پر ابھی گزشتہ روز منگل کو رہا کیا ہے۔ زینب الخواجہ کی ظالمانہ انداز میں حراست کی ویڈیو یوٹیوب پر دستیاب ہے۔

شیعہ مظاہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ بیشتر شیعہ افراد کو بحرینی حکام نے ملازمتوں سے فارغ کردیا ہے۔ شیعہ طالب علموں کو کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکال دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی جیلوں میں ہیں اور بعض اپنی مدت سزا پوری کر کے رہا ہوئے ہیں۔ مارچ کی تحریک کے دوران تین ہزار کے قریب افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں سات سو افراد ابھی بھی پسِ زندان ہیں۔

رواں برس مارچ کے بعد سے بحرین کے اندرون میں شیعہ دیہات اور قصبوں میں مظاہرے تواتر سے جاری رہے ہیں۔ بحرین کے امیر شاہ حمد نے مارچ کی تحریک کے حوالے سے ایک بین الاقوامی انکوائری کی رپورٹ کے تناظر میں بظاہر اصلاحات کا وعدہ ضرور کر رکھا ہے لیکن تاحال اس میں پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں