1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بحری جہازوں کا سب سے بڑا قبرستان بھارت میں

21 جون 2011

دُنیا بھر میں سمندروں کے سینے پر سفر کرنے والے بحری جہاز، مال بردار کنٹینر اور بحری بیڑے جب اپنی عمر پوری کر لیتے ہیں تو اُنہیں توڑ دیا جاتا ہے۔ ایسا 40 فیصد کام مغربی بھارت میں النگ کے مقام پر انجام پاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/11fWH
تصویر: picture-alliance/dpa

ریاست گجرات کے اس چھوٹے سے قصبے میں ساحل کے ساتھ ساتھ درجنوں بحری جہاز اور کنٹینر نظر آتے ہیں، جن کے حصے بخرے کیے جا رہے ہوتے ہیں۔ تقریباً 12 کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی پر 170 سے زیادہ شپ یارڈ ہیں اور کاٹھ کباڑ کا انبار اتنا بڑا ہوتا ہے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ ہر طرف راکھ اور گرد دیکھنے کو ملتی ہے اور تیل کی بُو آتی ہے۔ پانی میں بہت سی جگہوں پر بھورے رنگ کا گاڑھا مائع تیرتا نظر آتا ہے۔

دُنیا کے بحری جہازوں کے اس سب سے بڑے قبرستان میں ایک وقت میں تیس تیس ہزار تک مزدور کام کرتے نظر آتے ہیں۔ توڑ پھوڑ کی وجہ سے وہاں قیامت کا شور ہو رہا ہوتا ہے لیکن کم ہی مزدوروں نے کانوں پر حفاظتی ہیڈ فون چڑھائے ہوتے ہیں۔ ان مزدوروں کا تعلق عام طور پر بھارت کی غریب ریاستوں بہار، جھاڑ کنڈ، اڑیسہ اور اتر پردیش سے ہوتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ان پڑھ ہیں اور مہینے میں زیادہ سے زیادہ 9 ہزار روپے کما لیتے ہیں۔

ایک بھارتی ماں اور باپ اپنے اس بیٹے کی تصویر دکھا رہے ہیں، جو النگ میں کام کرنے کے دوران حادثے کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا
ایک بھارتی ماں اور باپ اپنے اس بیٹے کی تصویر دکھا رہے ہیں، جو النگ میں کام کرنے کے دوران حادثے کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھاتصویر: AP

یہ مزدور ہفتے میں چھ دن کام کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر جستی چادروں سے بیس سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے بنائی گئی عارضی رہائش گاہوں میں رہتے ہیں، جہاں اکثر پانی کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہوتی حالانکہ ان مزدوروں کے لیے بہت عرصہ پہلے پکی بستیاں تعمیر ہو جانا چاہیے تھیں۔

وپل سنگھوی پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور اب تک 1983ء میں النگ میں قائم ہونے والے بحری جہازوں کو توڑنے کے اس مرکز کے سینکڑوں مزدوروں کے حق کے لیے لڑ چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان شپ یارڈز میں اکثر حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ جہازوں سے سارا تیل نکالنے سے پہلے ہی اُنہیں توڑنے کا کام شروع کر لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے دھماکے اور آگ لگنے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ شپ یارڈ کے مالکان قواعد و ضوابط کی پابندی نہیں کرتے اور متعلقہ محکموں میں رشوت دے کر اسشنائی سہولتیں حاصل کر لیتےہیں۔

سنگھوی کے مطابق سال میں کم از کم 60 مزدور کام کے دوران حادثات کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں تاہم سرکاری طور پر ان ہلاکتوں کی تعداد محض چار تا پانچ بتائی جاتی ہے۔ شپ یارڈ کے مالکان مزدوروں کی سلامتی اور صحت کے لیے ناکافی اقدامات کو محض میڈیا اور بیرونی ممالک کی پھیلائی ہوئی داستانیں قرار دیتے ہیں۔

تحفظ ماحول کے علمبردار گروپ گرپن پیس کے ارکان زہریلے مادوں سے آلودہ بحری جہازوں کے النگ میں توڑے جانے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں
تحفظ ماحول کے علمبردار گروپ گرین پیس کے ارکان زہریلے مادوں سے آلودہ بحری جہازوں کے النگ میں توڑے جانے کے خلاف سراپا احتجاج ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

2006ء میں بھارت کی سپریم کورٹ نے ایک انقلابی فیصلہ دیا تھا۔ تب فرانسیسی بحریہ کے ایک طیارہ بردار بیڑے کو النگ میں توڑا جانا تھا۔ تاہم گرین پیس جیسی ماحولیاتی تنظیموں نے احتجاج کیا کہ یہ جہاز قسم قسم کے زہریلے مادوں سے آلودہ ہے۔ سپریم کورٹ نے نہ صرف النگ میں اس بیڑے کے توڑے جانے پر پابندی عائد کر دی بلکہ بین الاقوامی ادارہ محنت ILO کے ضوابط کی خلاف ورزی پر سزائیں بھی سخت بنا دیں۔ تاہم وکیل سنگھوی کے مطابق اول تو بہت ہی کم مزدور اپنے حقوق سے واقف ہیں اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور اگر عدالت تک پہنچ بھی جائیں تو اُن کے مقدمات پر سالہا سال تک کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ آج کل تقریباً سات ہزار کیسز ایسے ہیں، جن پر کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔

النگ کے شپ یارڈز کو خدشہ ہے کہ اگر وہ بین الاقوامی ضوابط کو اپنے ہاں رائج کریں گے تو جہازوں کو توڑنے کا کام مہنگا ہو جائے گا اور یوں جو کام النگ میں آتا ہے، وہ بنگلہ دیش میں چٹاگانگ یا پھر پاکستان کے گڈانی شپ بریکنگ مراکز کے پاس چلا جائے گا۔

رپورٹ: پریا ایسل بورن / امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید