1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بدعنوانی کا شکار بھارت، سیاسی اعتماد کا بحران

14 نومبر 2011

’بھارت کا المیہ اس کا اپنا سیاسی نظام ہے۔‘ ایک بھارتی وزیر کی طرف سے اس حقیقت کے اعتراف نے اسی ہفتے وہاں ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے مندوبین کی جیسے دل کی بات کہہ دی۔

https://p.dw.com/p/13AR0
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھتصویر: AP

ممبئی میں ہونے والے اس فورم میں مندوبین کی طرف سے کھل کر الزام اس بدعنوانی اور نئی دہلی کی مفلوج پالیسیوں پر لگایا جا رہا تھا، جن کی وجہ سے بھارتی اقتصادی امکانات پر تاریکی کے بادل چھاتے جا رہے ہیں۔ صرف چند ماہ قبل جب بھارت میں چند سماجی کارکنوں نے ملک میں بھوک ہڑتالوں اور عوامی مظاہروں کے ذریعے احتجاج کرنا شروع کیا تو یکدم کئی ملین شہری سڑکوں پر نکلنا شروع ہو گئے تھے۔ اس صورت حال نے حکومت کو ڈرا دیا تھا۔

Indien Hungerstreik Baba Ramdev
بھارت میں بھوک ہڑتال کرنے والے بابا رام دیوتصویر: AP

اب یہ عوامی احتجاج ختم ہو چکا ہے لیکن وزیر اعظم من موہن سنگھ اور ان کی حکومت پر دباؤ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ اس پس منظر میں ممبئی منعقدہ عالمی اقتصادی فورم میں بھارت کے سرکردہ ترین صنعتکاروں نے خبردار کیا کہ ایشیا کی اس تیسری سب سے بڑی معیشت کو فوری طور پر اصلاحات اور طرز حکومت میں بہتری کی ضرورت ہے۔

ایسے مطالبات حکومت کے لیے اس لیے بھی جیسے خطرے کی گھنٹی بن گئے ہیں کہ ملکی معیشت میں آئندہ دنوں میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے آثار واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بھارت میں سال رواں کے دوران اقتصادی ترقی کی شرح 7.2 فیصد رہنے کی امید ہے۔ یہ شرح کافی زیادہ ہے لیکن پچھلے مالی سال کے مقابلے میں یہ کافی کم ہے، جب یہی شرح 8.5 فیصد رہی تھی۔

Indien Hungerstreik Baba Ramdev
یوگا گرو بابا رام دیو کی بھوک ہڑتال کو ختم کرانے کے لیے کی گئی پولیس کارروائی اور آنسو گیس کی شیلنگتصویر: AP

بھارتی معیشت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں صنعتی پیداوار میں ترقی کی رفتار سست ہو چکی ہے، صارفین کا اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے اور افراط زر کی شرح بھی 10 فیصد کے بہت قریب ہے حالانکہ ملکی مرکزی بینک کی طرف سے سود کی شرح میں مسلسل 13 مرتبہ اضافہ کیا جا چکا ہے۔

اس فورم سے خطاب کرتے ہوئے ریلائنس انڈسٹریز کے سربراہ اور امیر ترین شہری مکیش امبانی نے کہا کہ ایسا کہنا غلط ہو گا کہ جمہورت اور جمہوری ادارے موجود ہیں تو وہ مفلوج بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کے بقول انہیں جو بات سب سے زیادہ تکلیف دیتی ہے، وہ ایسے بیانات ہیں کہ مثال کے طور پر ’ایک پارٹی حکومت میں ہے تو ایک اپوزیشن میں، اپوزیشن ہمیں بالکل کام نہیں کرنے دیتی۔‘ مکیش امبانی کے مطابق ایسی ساری دلیلیں غلط وضاحتیں ہیں۔

Indien Hungerstreik Baba Ramdev
پولیس کارروائی کے بعد بابا رام دیو اپنے حامیوں کے ہمراہتصویر: AP

مکیش امبانی نے کہا کہ بھارت میں 20 ویں صدی کی ذہنیت سے نکل کر 21 ویں صدی کے فعال اداروں کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول یہ کام ایسے کیا جانا چاہیے کہ ہر شہری کی توقعات کو پورا کیا جا سکے تاہم اس کے لیے موجودہ طرز‍ حکومت میں بہت بڑی اور تیز رفتار تبدیلی درکار ہو گی۔

اسی فورم میں قابل تجدید توانائی کے بھارتی وزیر فاروق عبداللہ نے کہا کہ بھارت کا المیہ اس کا اپنا ہی سیاسی نظام ہے۔ فاروق عبداللہ کے مطابق فیصلہ اب بھارتی سیاستدانوں کو کرنا ہے۔ ’’تبدیلی اس وقت آئے گی، جب ہم تبدیل ہوں گے۔‘‘

اس موقع پر بھارت میں بدعنوانی کے خلاف ملک گیر تحریک کی ایک سرکردہ رکن کرن بیدی نے ملک میں کرپشن کے خلاف نئے عوامی مظاہروں سے خبردار بھی کیا۔ کرن بیدی نے کہا کہ اگلے ہفتے ملکی پارلیمان کے موسم سرما کے جس سیشن کا آغاز ہونے والا ہے، اس میں حکومت کو لازمی طور پر بدعنوانی کے مرتکب وزیروں اور اعلیٰ سرکاری افسروں کو سزائیں سنا سکنے والے ایک نئے طاقتور قومی ادارے کے قیام سے متعلق قانونی بل منظور کرنا چاہیے۔ کرن بیدی کے مطابق اگر حکومت آئندہ پارلیمانی سیشن میں یہ قانون سازی نہ کر سکی، تو بدعنوانی کے خلاف قومی تحریک پورے ملک میں عوامی مظاہرے شروع کر دے گی۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں