1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ میں عراق جنگ کی تفتیش شروع

24 نومبر 2009

برطانیہ میں منگل چوبیس نومبر کو سرکاری طور پر عراق جنگ کے بارے میں برطانوی کردار کی تفتیش شروع ہوگئی ہے۔ اس تفتیش کے نتائج آئندہ سال کے عام انتخابات سے قبل برطانوی حکومت کے لئے شرمندگی کا باعث بن سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/KeGN
تحقیقاتی ٹیم کا کام جولائی سن 2001ء اور جولائی 2009ء کے درمیانی عرصے میں لندن حکومت کے فیصلوں کا تجزیہ کرنا اور 2003ء میں عراق میں برطانوی مداخلت کی وجوہات جاننا ہےتصویر: AP

برطانوی وزیر اعظم گورڈن براوٴن نے اس سلسلے میں رواں سال جون میں ہی سابق سول سرونٹ John Chilcot کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی۔ اس ٹیم کا کام جولائی سن 2001ء اور جولائی 2009ء کے درمیانی عرصے میں لندن حکومت کے فیصلوں کا تجزیہ کرنا اور 2003ء میں عراق میں برطانوی مداخلت کی وجوہات جاننا ہے۔

Der britische Premierminister Gordon Brown bei einem Kurzbesuch in Irak
برطانوی وزارت دفاع کی طرف سے جاری اس تصویر میں برطانوی وزیر اعظم گورڈن براوٴن عراق کے بصرہ کیمپ میں اپنے فوجیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئےتصویر: AP

جان چلکوٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اُن کی سربراہی میں تفتیشی ٹیم عراق میں برطانوی کردار کی اصل وجوہات کا پتہ لگائے گی۔ چلکوٹ نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ تفتیشی عمل مکمل طور پر ’’غیرجانبدار، شفاف اور صاف ہوگا۔‘‘ اُنہوں نے مزید کہا کہ انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ برطانوی عوام تفتیش سے کیا توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں۔

سن 2003ء میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے عراق پر حملہ کردیا تھا، جس کا مقصد سابق صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹانے کے علاوہ وہاں مبینہ طور پر موجود ’وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں‘ کا سراغ لگانا بتایا گیا۔ صدام حسین کا تختہ الٹا دیا گیا، انہیں پھانسی بھی ہوئی تاہم وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا آج تک کوئی پتہ نہیں چلا۔

Schlacht um Nadschaf
عراق میں ایک تصادم کے بعد سیکیورٹی فورسز اس شخص کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے جاتے ہوئےتصویر: AP

سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اُس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے اپنے ملک کے پینتالیس ہزار سے زائد فوجی عراق روانہ کر دئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جنگ غیر مقبول ہوتی گئی۔ امریکہ کی طرح ہی اس کے سب سے بڑے اتحادی ملک برطانیہ میں بھی عوام کی اکثریت اس جنگ کی مخالفت کرتی رہی، یہاں تک کہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کے بعض حامی بھی عراق جنگ کی مخالفت کرتے نظر آئے۔

Kriegsgegner Brian Haw bei Kundgebung für Truppenabzug aus dem Irak
عراق جنگ کے مخالفین میں سب سے زیادہ سرگرم کارکن برائن ہاوٴ ایک مظاہرے کے دورانتصویر: AP

برطانیہ نے عراق جنگ کے نتیجے میں گزشتہ چھ سال میں اپنے 179 فوجی گنوا دئے۔ اس جنگ کے دوران برطانوی فوجیوں پر عراقی مزاحمت کاروں کو حراستی مراکز اور تفتیشی کیمپوں میں شدید جمسانی اذیتیں پہنچانے کے سنگین الزامات بھی عائد کئے جاتے رہے۔

اس سال اپریل میں برطانیہ نے سرکاری طور پر عراق میں عسکریت پسندوں کے خلاف اپنے آپریشن بند کرنے کا اعلان کیا تاہم ابھی بھی اس کے کچھ دستے عراقی سیکیورٹی فورسز کو تربیت فراہم کرنے کے سلسلے میں وہیں موجود ہیں۔

عراق جنگ میں مارے جانے والے فوجیوں کے اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ اپوزیشن سیاست دان کافی عرصے سے اس جنگ کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا یہ کہنا ہے کہ انٹیلی جینس معلومات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور عراق میں برطانوی مداخلت کے لئے غلط طریقے سے راہ ہموار کی گئی۔

Choreographie der Macht
سابق امریکی صدر جارج بُش اپنے سب سے قریبی حلیف ملک برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئےتصویر: AP

برطانیہ میں جون سن 2010ء میں عام انتخابات منعقد ہونے والے ہیں۔ بعض سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے خیال میں عراق جنگ کی ’’انکوائری کا نتیجہ برطانوی حکومت کے لئے شرمندگی کا باعث ہوسکتا ہے۔‘‘

بعض عوامی جائزوں کے مطابق برطانوی وزیر اعظم گورڈن براوٴن کی جماعت لیبر پارٹی کو ان انتخابات میں شکست ہو سکتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اگلی حکومت قدامت پسندوں کی ہو۔

عراق جنگ کے حوالے سے اس سے پہلے بھی دو سرکاری انکوائریز کرائی گئی ہیں۔ سن 2004ء میں عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی مبینہ موجودگی کے حوالے سے کرائی گئی تفتیش میں بتایا گیا تھا کہ انٹیلی جینس کے بعض حصّوں کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا تھا تاہم وزراء نے جان بوجھ کر عوام کو دھوکے میں نہیں رکھا۔

موجودہ یعنی تیسری تفتیشی ٹیم آئندہ سال کے آغاز پر سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے علاوہ دیگر سیاست دانوں سے بھی پوچھ گچھ کرے گی۔

رپورٹ: گوہر نذیر گیلانی

ادارت: امجد علی