1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ میں مخلوط حکومت سازی اور سیاسی ترجیحات

12 مئی 2010

برطانيہ ميں قدامت پسند ٹوری پارٹی نےانتخابات ميں واضح اکثريت حاصل کرنے ميں ناکامی کے بعد لبرل ڈيموکريٹک پارٹی کے ساتھھ مل کر مخلوط حکومت تشکيل دی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس ملک ميں پہلی بارمخلوط حکومت بنی ہے۔

https://p.dw.com/p/NM0n
ڈیوڈ کیمرون، ملکہ برطانیہ کے ہمراہتصویر: AP

برطانيہ ميں 13 سال بعد ليبر پارٹی کی حکومت ختم ہوگئی ہے۔ کنزرويٹو پارٹی گزشتہ پانچ دنوں ميں مخلوط حکومت بنانے کی سرتوڑ کوششوں کے بعد آخر ميں لبرل ڈيموکريٹک پارٹی کے ساتھھ مل کر حکومت بنانے ميں کامياب ہو ہی گئی۔ اس سے پہلے، انتخابات ميں ہارنے والی ليبر پارٹی کے قائد گورڈن براؤن نے بھی لبرل ڈيموکريٹس کی مدد سے اپنی حکومت برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی، ليکن کل سہ پہر اُن کی آخری سعی بھی ناکام ہوگئی جس کے بعد گورڈن براؤن نے وزيراعظم اور ليبر پارٹی کے سربراہ کےعہدوں سے استعفی دے ديا۔

قدامت پسند پارٹی سے تعلق رکھنے والے نئے وزير اعظم ڈيوڈ کيمرون نے کل شام کہا کہ بجٹ کے بھاری خسارے اور سماجی مسائل کی وجہ سے برطانيہ کو بڑے چيلنجوں کا سامنا ہے:'' اس لئے ميں کنزرويٹو اور لبرل ڈيموکريٹک پارٹی کی ايک مضبوط مخلوط حکومت بنانا چاہتا ہوں۔ نک کليگ اورميں، پارٹی اختلافات کو نظرانداز کرتے ہوئے مفاد عامہ پر توجہ دينا چاہتے ہيں۔''

Gordon Brown Rücktritt Mai 2010
گورڈن براؤن اپنی اہلیہ کے ہمراہ مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئےتصویر: AP

اگرچہ لبرل ڈيموکريٹک پارٹی اورکنزرويٹو پارٹی کے سياسی نظريات ايک دوسرے سے بہت مختلف ہيں، ليکن اس کے باوجود لبرل ڈيموکريٹس، کنزرويٹو پارٹی کے ساتھھ مل کرحکومت تشکيل دينے پر تيار ہو گئے ہيں۔ ابھی يہ واضح نہيں ہے کہ لبرل ڈيموکريٹک پارٹی کے قائد نک کليگ نے اس کے بدلے ميں کنزرويٹو پارٹی سے کيا رعايتيں حاصل کی ہيں۔

لبرل ڈيموکريٹک پارٹی، مخلوط حکومت کی چھوٹی جماعت ہے اورجرمنی کے برعکس برطانيہ ميں مخلوط حکومت کی چھوٹی جماعت کو حکومت ميں بڑی وزارتيں نہيں دی جاتيں۔

برطانيہ کی نئی حکومت ميں وزيرماليات کنزرويٹو پارٹی کے جارج آسبورن ہيں جو نئے وزيراعظم ڈيوڈ کيمرون کے ايک سياسی رفيق ہيں۔ وزارت خارجہ وليم ہيگ کو سونپی گئی ہے جو کنزرويٹو پارٹی کے، يورپی يونين کی مخالفت کرنے والے بازو سے تعلق رکھتے ہيں۔ اس وجہ سے آئندہ يورپی يونين ميں مذاکرات کا سلسلہ مشکل ہوجائے گا۔

لبرل ڈيموکريٹک پارٹی کے قائد نک کليگ نائب وزيراعظم ہوں گے، ليکن اس عہدے کے ذريعے اُنہيں نہ تو طاقت حاصل ہوگی اور نہ ہی کوئی اہم ذمہ دارياں سونپی جائيں گی۔

Nick Clegg England Großbritannien
لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے نک کلیگتصویر: picture-alliance/dpa

نئے برطانوی وزيراعظم ڈيوڈ کيمرون نے اپنے پہلے بيان ميں ان مشکل حالات کا ذکر کيا جس کا ملک کو سامنا ہے: ''ميری حکومت بڑے چيلنجوں کا مقابلہ کرے گی۔ مشکل فيصلے کئے جائيں گے،عوام کو ساتھ لے کر چلا جائے گا اور ہم مل جل کر حالات کو بہتر بنا سکيں گے۔''

کيمرون کی مراد خاص طور پر اقتصادی چيلنج سے ہے کيونکہ برطانيہ کے بجٹ کا خسارہ بہت زيادہ ہے۔ حکومت ميں اُن کی ساتھی جماعت لبرل ڈيموکريٹک پارٹی، بچت کی کچھ زيادہ حامی نہيں ہے ، ليکن يہاں 190 ارب يورو اور 12 فيصد نئے قرضوں کی ادائيگی کا معاملہ ہے اور انتخابات سے پہلے ہی عوام ميں بددلی پھيلی ہوئی تھی۔

نئی حکومت ميں شامل جماعتوں ميں اس پر اتفاق ہو گيا ہے کہ مزيد قومی اختيارات کی يورپی يونين کو منتقلی سے پہلے ريفرنڈم کے ذريعے عوام سے ان کی منظوری لی جائے گی۔ اس کے علاوہ اميگريشن پر بھی بندشيں لگائی جائيں گی۔ نائب وزيراعظم نک کليگ نے کہا کہ ٹيکس کا زيادہ منصفانہ نظام قائم کيا جائے گا اور بينکاری نظام ميں بھی تبديلياں لائی جائيں گی۔

رپورٹ: باربرا ويزل / شہاب احمد صديقی

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں