1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ میں نیا متنازعہ قانون منظور، ’ہر کسی کی جاسوسی‘ ممکن

مقبول ملک
26 نومبر 2016

برطانوی پارلیمان نے ایک نئے لیکن بہت متنازعہ قانون کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت ریاستی اور پبلک سیکٹر کے اہلکار عملاﹰ ’ہر کسی کی جاسوسی‘ کر سکیں گے۔ اس قانون کے تحت ہر شہری کا انٹرنیٹ ریکارڈ حکام کی رسائی میں ہو گا۔

https://p.dw.com/p/2TIj6
Symbolbild Hacker Datendiebstahl Überwachung Computer
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Pape

برطانوی دارالحکومت لندن سے ہفتہ چھبیس نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق کسی بھی جدید معاشرے میں ریاستی اداروں کی طرف سے عام شہریوں کی نگرانی کے عمل کے لیے ’ہر جگہ نظر رکھے والے بِگ برَدر یا بڑے بھائی‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں برطانیہ میں اب ہوا یہ ہے کہ وہاں ’بڑا بھائی اور بھی بڑا‘ ہو گیا ہے۔

تیس سالہ روسی، دنیا کا خطرناک ترین ہیکر

’’برطانوی قانون، انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتا‘‘


برطانیہ میں فون ہیکنگ: اسکینڈل اور بھی وسیع

اس متنازعہ قانون کے مسودے پر سیاسی بحث کئی ماہ تک جاری رہی۔ لیکن پھر لندن میں ملکی پارلیمان نے اس کی منظوری دے ہی دی۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ اس نئے قانون کے تحت برطانیہ میں پولیس سے لے کر ملکی خفیہ اداروں تک اور فوڈ انسپکٹروں اور فائر بریگیڈ کے کارکنوں سے لے کر محکمہ ٹیکس کے انسپکٹروں تک کو یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ کسی بھی عام شہری کی انٹرنیٹ پر مصروفیات یا براؤزنگ تفصیلات کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔

ایسا اس طرح ممکن ہو سکے گا کہ برطانیہ میں تمام ٹیلی کوم کمپنیوں کو اس بات کا پابند بنا دیا گیا ہے کہ وہ ہر صارف کی انٹرنیٹ پر سرگرمیوں کا مکمل ریکارڈ کم از کم بھی ایک سال تک محفوظ رکھنے کی پابند ہوں گی۔

اس کا ایک ممکنہ نقصان یہ ہو گا کہ اول تو ہر ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کو اپنے صارفین کی آن لائن سرگرمیوں کا کم از کم ایک سال تک کا مکمل ریکارڈ رکھنا ہو گا جو تکنیکی طور پر ایک بہت مہنگا اور پیچیدہ کام ہو گا اور دوسرے یہ کہ اس طرح وجود میں آنے والا ڈیٹا بیس خطرے سے خالی بھی نہیں ہو گا۔

Äthiopien Addis Abeba Universität Kommunikation Internetsperre
ماہرین کے مطابق ایسے کسی بھی ڈیٹا بیس کو اس کے افشاء اور ممکنہ ہیکرز کے ہاتھ لگ جانے سے بچانا بھی کافی مشکل ثابت ہو گا تصویر: DW/J. Jeffrey

ماہرین کے مطابق ایسے کسی بھی ڈیٹا بیس کو اس کے افشاء اور ممکنہ ہیکرز کے ہاتھ لگ جانے سے بچانا بھی کافی مشکل ثابت ہو گا اور اخلاقی طور پر  عام صارفین اس لیے بھی بے چین ہوں گے کہ وہ چاہے انٹرنیت تک رسائی اپنے دفتر، جائے رہائش یا خواب گاہ سے حاصل کریں، ان کی آن لائن مصروفیات کی ہر قسم کی تفصیلات کا کسی تیسرے کی دسترس میں ہونا کسی بھی فرد کے لیے باعث اطمینان نہیں ہو سکتا۔

اس بل کو تفتیشی اختیارات کے مسودہ قانون یا ’انویسٹی گیٹری پاورز بل‘ کا نام دیا گیا ہے، جو برطانوی پارلیمان میں ایک سال سے بھی زائد عرصے تک جاری رہنے والی بحث کے بعد منظور کیا گیا۔

انٹرنیٹ کے موجدوں میں شمار ہونے والے معروف سائنسدان برنرز لی نے اس قانون کی منظوری کے بعد ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں اس کی منظوری کے دنوں کو ’سیاہ، بہت سیاہ دنوں‘ کا نام دیا ہے۔