1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ کا ’خطرناک‘ افغان ضلع چھوڑنے کا فیصلہ

8 جولائی 2010

برطانوی دَستوں نے آئندہ مہینوں کے دوران جنوبی افغانستان کے خاص طور پر خطرناک ضلع سنگین کا کنٹرول امریکی فوجیوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ منشیات کی تجارت کے مرکز سنگین میں بہت سے متحارب قبائل آباد ہیں۔

https://p.dw.com/p/ODfV
تصویر: AP

بدھ کو برطانوی وزیر دفاع لیئم فوکس نے لندن میں کہا کہ برطانوی فوجی سنگین چھوڑنے کے بعد اپنی توجہ صوبے ہلمند کے مرکزی علاقے کو طالبان کے قبضے سے آزاد کروانے پر مرکوز کریں گے۔ ایوانِ زیریں میں اپنے خطاب میں فوکس نے کہا کہ ہلمند صوبے کے شمال میں سنگین کے مقام پر تعینات تقریباً ایک ہزار برطانوی فوجی پروگرام کے مطابق اکتوبر میں اِس جگہ کا کنٹرول امریکی فوجیوں کے حوالے کر دیں گے۔

برطانوی کمان میں سرگرمِ عمل فوجیوں میں ڈنمارک اور ایستونیا کے فوجی بھی شامل ہیں اور سنگین سے انخلاء کے بعد یہ تمام فوجی ہلمند کے گنجان آباد مرکزی علاقے میں تعینات کئے جائیں گے۔ فوکس نے کہا کہ یہ پسپائی نہیں بلکہ دستوں کو نئے سرے سے منظم کرنے کا عمل ہے۔ فوکس نے یہ بھی بتایا کہ ہلمند وقت کے ساتھ ساتھ ’ایک محفوظ تر مقام‘ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

Großbritannien / Cameron / Wahl
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون 2015ء تک افغانستان سے مکمل انخلاء چاہتے ہیںتصویر: AP

برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایوانِ زیریں میں اِس بات پر زور دیا کہ وہ آنے والے برسوں میں افغانستان سے برطانوی دَستوں کے انخلاء پر غور کر رہے ہیں:’’کیا اگلے پانچ برسوں میں ہم وہاں جنگ میں کوئی کردار ادا کر رہے ہوں گے یا ہمارے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود ہونی چاہئے؟ میرے خیال میں اِس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ہمارے پاس جو منصوبہ ہے، اُس کا مقصد اِس بات کو یقینی بنانا ہے کہ سن 2015ء میں ہم افغانستان میں نہیں ہوں گے اور اِسی لئے اب وہاں باغیوں پر دباؤ زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘‘

سن 2001ء میں افغانستان میں اپنی پیش قدمی کے بعد سے اب تک 312 برطانوی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے 99 فوجی سنگین اور اُس کے نواحی علاقوں میں مارے گئے۔ امریکہ کے بعد برطانیہ افغانستان کے لئے اپنے فوجی روانہ کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور برطانوی عوام میں یہ فوجی مشن خاصا متنازعہ ہے۔ افغانستان میں برطانیہ کے فوجیوں کی مجموعی تعداد ساڑھے نو ہزار ہے، جن میں سے اکٹھے آٹھ ہزار ہلمند صوبے میں تعینات ہیں۔

Flash-Galerie US Militär Afghanistan
افغان اور آئی سیف کے فوجی دستوں نے رواں سال ہی ہلمند میں بڑے پیمانے پر آپریشن کرکے کنٹرول سنبھالا ہےتصویر: AP

طالبان نے سنگین سے دستے ہٹانے کے برطانوی اعلان کو اپنی ایک بڑی جزوی فتح قرار دیا ہے۔ طالبان کے ترجمان یوسف احمدی کے مطابق طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یہ اعلان افغانستان میں برطانوی دستوں کی شکست کا نقطہء آغاز ہے‘۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ سنگین میں امریکی فوج کا بھی وہی حال ہو گا، جو برطانوی فوج کا ہوا ہے۔

ایک سرکردہ برطانوی فوجی افسر نے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، برطانوی اخبار ’دی گارڈین‘ کو بتایا ہے کہ سنگین سے انخلاء ’دفاعی حکمتِ عملی کے اعتبار سے ایک شکست‘ ہے۔ جنگ مخالف تنظیم ’سٹاپ دی وار‘ نے اِس اعلان کو ’شکست کا خاموش اعتراف‘ قرار دیا ہے۔

رپورٹ : امجد علی

ادارت : شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید