1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن حملوں کے بعد جرمنی میں سکیورٹی نظام میں وسیع تبدیلیاں

عاطف بلوچ، روئٹرز
24 دسمبر 2016

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ملک میں سکیورٹی نظام میں وسیع تبدیلیوں کو اعلان کیا ہے۔ برلن حملوں کے بعد جرمنی میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔

https://p.dw.com/p/2UpkL
Italien Terrorverdächtiger Anis Amri in Mailand erschossen PK Angela Merkel
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz

جرمن حملوں کا مشتبہ ملزم اور ملک میں بہ طور مہاجر داخل ہونے والا انیس عامری ملکی سکیورٹی اداروں کے نظر میں ہونے کے باوجود کس طرح انہیں چکمہ دے کر یہ حملے کرنے اور پھر بچ نکلنے میں کامیاب ہوا؟ یہ مشتبہ حملہ آور گو کہ گزشتہ روز اطالوی شہر میلان کے قریب ایک پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے، تاہم جرمنی میں یہ سوال حکومت اور سکیورٹی اداروں کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔

چانسلر انگیلا میرکل نے جمعے کے روز ہدایات جاری کی ہیں کہ ملک کے سکیورٹی ڈھانچے پر نظرثانی کی جائے۔ میرکل حکومت اور برلن پولیس کو کرسمس مارکیٹ پر ٹرک حملے اور وہاں 12 افراد کی ہلاکت کے تناظر میں شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس حملے میں ملوث مشتبہ ملزم باآسانی جائے واردات سے پیدل فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

24 سالہ تیونسی نژاد انیس عامری کو برلن حملے کے چار روز بعد میلان میں پولیس کے ساتھ ایک جھڑپ میں ہلاک کر دیا گیا، تام جرمن حکام شدید عوامی تنقید کا شکار ہیں کہ ایک ایسا ملزم جو چھ ماہ تک سکیورٹی اداروں کی نگاہ میں تھا، وہ جہادیوں کے ساتھ رابطوں کے باوجود کس طرح یہ واردات کرنے میں کامیاب ہوا؟

Deutschland Identitäre Bewegung protestiert in Berlin
جرمنی میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہےتصویر: Reuters/A. Schmidt

جرمن کریمنل تفتیش کاروں کی تنظیم کی برلن شاخ کے صدر میشائل بؤہل کے مطابق، ’’وہ اس نیٹ سے کیسے بچ نکلا؟ عامری کا معاملہ کئی طرح کے سوال اٹھا رہا ہے۔ کیوں کہ یہ سوالات صرف اس واقعے سے ہی جڑے نہیں بلکہ اس سے پہلے کے وقت سے بھی جڑے ہیں، کیوں کہ وہ گزشتہ برس جولائی میں جرمنی میں داخل ہوا تھا اور اس نے یہاں سیاسی پناہ کی درخواست دائر کی تھی۔‘‘

جرمنی پہنچنے سے قبل عامری کو اٹلی میں دنگا فساد اور دیگر جرائم کے تحت چار برس کی سزا سنائی گئی تھی اور سزا کے خاتمے کے بعد تیونس حکومت کی جانب سے سفری دستاویزات مہیا نہ کیے جانے پر اسے کہا گیا تھا کہ وہ ملک سے نکل جائے، جس کے بعد وہ اٹلی سے جرمنی میں داخل ہوا اور یہاں سیاسی پناہ کی درخواست دائر کر دی۔

چانسلر میرکل کا کہنا ہے کہ اس بات کا باریکی سے جائزہ لیا جائے گا کہ سیکورٹی نظام میں کہاں کہاں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تیونس کے صدر باجی قائد السبسی سے بھی بات چیت کی ہے، جس میں سیاسی پناہ کے ناکام تیونسی شہریوں کی جلد وطن واپسی کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

جرمنی میں رواں برس جون میں عامی کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو گئی تھی، تاہم اس کی تیونسی شہریت کی تصدیق میں کئی ماہ کا عرصہ لگ گیا، جب کہ اس دوران اسے جرمنی میں رہنے کی اجازت تھی۔