1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن میں بین الاقوامی ادبی میلہ

امجد علی26 ستمبر 2008

جرمن دارالحکومت برلن میں اِن دنوں آٹھواں بین الاقوامی ادبی میلہ منعقد ہو رہا ہے، جس میں ادیبوں کے ساتھ شاموں، مذاکروں، مباحثوں اور موسیقی کے پروگراموں سمیت تقریباً 230 اجتماعات کا پروگرام گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/FPoC
برلن کے بین الاقوامی ادبی میلے کا Logo

جرمنی بھر میں اپنی نوعیت کے سب سے بڑے اور اِس سال آٹھویں میلے کا آغاز ہوا تھا، 24 ستمبر کو۔ گو اِس باربراعظم افریقہ اور افریقی شناخت رکھنے والے خطوں کے ادب کو یہاں خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے لیکن ہر سال کی طرح اِس بار بھی دُنیا بھر کے مختلف خطوں سے کئی نامور ادیب اِس اجتماع میں شرکت کر رہے ہیں۔

اِن کوئی ایک سو نامور ادیبوں میں ہنگری کے پے ٹر اَیسترہازی، ناروے کے جَون فَوس اور بلغاروی نژاد جرمن ادیب اِلیا ترویانوف کے ساتھ ساتھ بھارت کے انگریزی زبان میں لکھنے والے نامور ادیب امیتاو گھوش بھی شامل ہیں۔

Ghosh1386.jpg
امیتاو گھوش ڈوئچے ویلے میں شعبہء جنوبی ایشیا کے سربراہ گریہم لُوکاس کے ہمراہ

برلن سے پہلے امیتاو گھوش یہاں بون میں ڈوئچے ویلے آئے، جہاں تھوماس بیرتھ لائن کے ساتھ ایک گفتگو میں اُنہوں نے بتایا کہ اُن کا دیس بھارت ابھی نو آبادیاتی دَور کے زخموں سے سنبھل رہا ہے:’’دو صدیاں پہلے تک بھارت اور چین مل کر پوری دُنیا کی مجموعی قومی پیداوار کا نصف پیدا کیا کرتے تھے لیکن پھر نوآبادی طاقتوں کی عملداری سے اِن کی اِس حیثیت کو بہت نقصان ہوا۔ اب یہ دونوں ملک ایک بار پھر ترقی کی طرف بڑھ تو رہے ہیں لیکن آیا اِنہیں پھر سے وہی پہلے والا مقام حاصل ہو سکے گا، یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔ خاص طور پر بھارت تو ابھی نوآبادیاتی دَور سے پہنچنے والے صدمے کے بعد پھر سے رفتہ رفتہ بیدار ہو رہا ہے۔‘‘

بھارتی ادیب امیتاو گھوش کی طرح افریقی شناخت والے کیریبین جزیرے Antilles کے شہر گواڈیلَپ سے آئی ہوئی ممتاز ادیبہ Maryse Conde بھی اپنے علاقے کی نوآبادیاتی طاقت فرانس سے خوش نہیں ہیں۔ آنتیے جزیرے کا ادب باقی افریقی ادب سے کیسے مختلف ہے، اِس سوال کے جواب میں وہ کہتی ہیں: ’’Antilles کے باشندوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ فرانس کی ثقافتی، اقتصادی اور سماجی محتاجی سے آزاد ہو جائیں۔ ہمارے ملکوں کو فرانس کی سمندر پار آبادیاں کہہ دیا جاتا ہے، ہماری اپنی ثقافت کی کوئی قدر و قمیت نہیں ہے۔ ہم اب خود کو باقی دُنیا سے متعارِف کروانا چاہتے ہیں۔‘‘

Fatou Diome
سینیگال کی معروف ادیبہ فاتُو دی اومے بھی چند برس پہلے برلن کے ادبی میلے میں شرکت کر چکی ہیں، فائل فوٹوتصویر: dpa

کیریبین جزیرے آنتیے کی ادیبہ مارِیس کونڈےکی بین الاقوامی شہرت کا باعث اُن کا مشہور ناول "Segu" بنا تھا۔

برلن کے ادبی میلے کے دوران اِس بار مہمان خِطے افریقہ کی لائبریریوں کے لئے عطیہ اکٹھا کرنے کی ایک مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔

میلے میں اِس بار کے جرمن ادبی میلے میں ’’نیو جرمن وائسز‘‘ کے نام سے نوجوان جرمن ادیبوں کو متعارف کروانے کے ایک نئے سلسلے کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔ اِس پروگرام کے تحت نئے جرمن لکھنے والوں کو شائقین کے سامنے اپنی تخلیقات میں سے اقتباسات پیش کرنے کے مواقع دئے جا رہے ہیں۔

بچوں اور نوعمروں کے ادب کے شعبے میں بھی توسیع کی گئی ہے اور اِس شعبے یں اِس با ر بیس ادیبوں اور اُن کی تخلیقات کو متعارف کروایا جا رہا ہے۔ نثر پاروں کے ساتھ ساتھ یہاں شعروشاعری کی بھی محفلیں جمیں گی۔ ایسی ہی ایک محفل میں بارہ شاعرات اور شعراء حاضرین کو اپنےکلام سے نوازیں گے۔

پانچ اکتوبر تک جاری رہنے والے اِس میلے کے اختتام پر گیورگ ڈے ہی او کتاب ایوارڈ کی تقریبِ تقسیم منعقد ہو گی، جو اِس سال رچرڈ واگنر اور آندریاز کوسَرٹ نامی ادیبوں کے حصے میں آئے گا۔ 1932ء میں انتقال کر جانے والے جرمن مؤرخ سے موسوم یہ انعام مشرقی یورپ کی تاریخ اور ثقافت کو خصوصی طور پر اپنی تخلیقات میں پیش کرنے والے ادیبوں کو دیا جاتا ہے۔

آخری روز اِس بات پر زور دیا جائے گا کہ اگست میں انتقال کر جانے والے فلسطینی شاعر محمود درویش کی یاد میں ہر سال ایک دِن منایا جانا چاہیے۔