1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلینالے میں مقابلے کی فلموں میں پہلی عرب فلم

کشور مصطفیٰ12 فروری 2016

چھیاسٹھویں بین الاقوامی فلمی میلے برلینالے کے مقابلے کی فلموں کی اسکریننگ کا افتتاح اس بار عربی زبان میں بننے والی تیونس کی فلم ’’نحبک ھادی‘‘ سے ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hub8
تصویر: Internationale Filmfestspiele Berlin 2016

عرب بہار یا عرب دنیا میں انقلاب کا آغاز کرنے والے شمالی افریقی ملک تیونس سے تعلق رکھنے والے فلمساز محمد بین عطیہ کی یہ پہلی فیچر فلم ہے اور برلینالے میں گزشتہ دو دہائیوں میں مقابلے کی فلموں میں شامل ہونے والی پہلی عرب فلم بھی ہے۔

1996 ء سے اب تک یورپ کے سب سے مقبول اور بڑے سالانہ سنیما شوُ کیس’برلیانلے‘ میں پیش کی جانے والی یہ پہلی عرب فلم ہے۔ تیونسی فلمساز اور ہدایت کار محمد بین عطیہ نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا،’’ایسا نہیں کہ میں پُر عزم نہیں تھا تاہم میں نے برلن آنے کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ہم سب تعجب میں ہیں۔‘‘

یہ پہلی بار ہے کہ کسی ایسے فلمساز کو برلینالے کے مقابلے میں حصہ لینے کے لیے مدعو کیا گیا ہے جس نے ابھی اپنی پہلی فلم بنائی ہے۔ محمد بین عطیہ 1976ء میں تیونس میں پیدا ہوئے۔ امسالہ برلینالے میں شرکت کے بارے میں تین بار آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والی امریکی اداکارہ میریل اسٹریپ، جو برلینالے 2016ء کی جیوری کی صدر بھی ہیں کہتی ہیں،’’نحبک ھادی‘‘یہ ایک نادر کامیابی ہے۔ برلینالے کے گولڈن بیئر کے مقابلے کی 18 فلموں میں محمد بین عطیہ کی پہلی فلم بھی شامل ہے۔‘‘

Deutschland Berlinale 2016 Meryl Streep und Dieter Kosslick
برلینالے کے ڈائٍیرکٹر ڈیٹر کوسلک اور امریکی اداکارہ میریل اسٹریپ، جو برلینالے 2016ء کی جیوری کی صدر ہیںتصویر: picture alliance/ZUMA Press

بین عطیہ اپنی اس فلم کے بارے میں کہتے ہیں،’’میری فلم کا ہیرو جس کے نام ’سیرین‘ کا عربی میں مطلب پرسکون ہے، کو بے روز گار شخص نہیں ہے، نہ ہی اس کا تعلق کسی غریب گھرانے سے ہے تاہم یہ خود کو اپنے ہی معاشرے میں اجنبی اور بے موقع محسوس کرتا ہے۔‘‘

بین عطیہ کی فلم کا یہ کردار جب ایک رِم نامی گائیڈ سے ملتا ہے تو وہ اُس سے سنجیدہ سوالات کرنے لگتا ہے۔ یعنی اُس کردار کے بارے میں جس میں وہ خود کو اپنے معاشرے میں دیکھنا چاہتا ہے‘‘۔ سیرین کا کردار مجد مستورا نے ادا کیا ہے۔ بین عطیہ بتاتے ہیں کہ وہ فلم سازی سے پہلے ایک ’مقلد‘ یا روایت پرست ہوا کرتے تھے اور اس فلم کو لانچ کرنے سے پہلے گاڑیاں فروخت کیا کرتے تھے۔ اُن کے ذہن میں اس فلم کو بنانے کا تصور 14 جنوری 2011ء کو اُس وقت آیا تھا جب وہ تیونس کی وزارت داخلہ کے باہر کھڑے طریل عرصے سے تیونس کے اقتدار پر براجمان آمر حکمران زین العابدین بن علی کی برطرفی کا مطالبہ کرنے والوں میں شامل تھے۔

Symbolbild Iran bei der Berlianle
ماضی میں برلینالے میں ایرانی فلموں کو بھی بہت مقبولیت حاصل ہو چُکی ہے

محمد بین عطیہ کا کہنا ہے،’’وہ ایک ایسے دور کا خاتمہ تھا جس میں سینسرشپ عروج پر تھی، ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ سیاسی سینسرشپ ہے تاہم اُس نے ہر کسی کو ایک طرح سے پُرسکون اور اُس کا عادی بنا دیا تھا۔‘‘

بین عطیہ اپنی فلم کے کردار کے بارے میں مزید بتاتے ہیں،’’عرب انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شورش کے ساتھ ساتھ ھادی اپنے اندر ایک جذباتی انقلاب بھی محسوس کرتا ہے اور وہ خود اپنی ذات کی تسخیر محبت کی ایک کہانی سے کرتا ہے۔ اُسے اس امر کا ادراک ہوتا ہے کہ اُس کے پاس ایک اور راستہ بھی ہے، وہ خود کو روایتی رسم و رواج سے دور کرلیتا ہے۔ شروع شروع میں وہ بڑا خوش و جوش میں رہتا ہے تاہم اس کے بعد اُسے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب کچن اتنا آسان نہیں۔‘‘

تیونس کا شمار عرب بہار کی ایک کامیاب کہانی میں ہوتا ہے۔