1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برما: پارلیمانی انتخابات اور عالمی ردعمل

8 نومبر 2010

فوجی حکومت کی نگرانی میں بیس سال بعد ہونے والے میانمار یا برما کے پارلیمانی انتخابات کو عالمی طاقتوں نے قطعی طور پر مسترد کر دیا ہے۔ مغربی قوتوں کے نزدیک یہ الیکشن کسی طور شفاف نہیں قرار دئے جا سکتے۔

https://p.dw.com/p/Q196
الیکشن میں ایک ووٹر ووٹ ڈالتے ہوئےتصویر: AP

میانمار یا سابقہ برما میں سن 1990 کے بعد ہونے والے الیکشن کے موقع پر سکیورٹی انتہائی سخت تھی۔ سرکاری میڈیا پر جاری ہونے والے نتائج میں الیکشن میں شریک دو حکومت کی پسندیدہ جماعتوں میں سے ایک Union Solidarity and Development Party (USDP)کی کامیابی کا اشارہ دیا گیا ہے۔ الیکشن کے حتمی نتائج کا اعلان پیر یا منگل کو ممکن دکھائی دیتا ہے۔ ایک یونین سالیڈیرٹی اینڈ اور دوسری ڈیویلپمنٹ پارٹی سپریم فوج سربراہ تھان شوے کی زوردار حامی ہے۔ اس نے تقریباً تمام سیٹوں پر امیدوار کھڑے کر رکھے ہیں۔

Dossierbild 3 Myanmar Wahlen
ینگون میں سوچی کی پارٹی کا دفترتصویر: picture-alliance/dpa

میڈیا رپورٹس کے مطابق میانمار کے سب سے بڑے شہر ینگون (رنگون) میں عوام کی بڑی تعداد نے ووٹنگ میں شرکت کے بجائے پگوڈا جا کر عبادتی عمل کو ترجیح دی۔ بیس سال قبل ہونے والے انتخابات میں نظربند لیڈر سوچی کی پارٹی نے بڑی کامیابی حاصل کی تھی لیکن ان کو فوج نے حکومت سازی کا حق نہیں دیا تھا۔

اتوار کو جنوب مشرقی ایشیائی ملک میانمار یا سابقہ برما میں بیس سالوں کے بعد انتخابات کا انعقاد مکمل ہو گیا ہے۔ اس الیکشن کے لئے فوجی حکومت نے پارٹیوں کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا اور مقید نوبل انعام یافتہ لیڈر آؤنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے اس حکومتی فیصلے کو ماننے سے انکار کردیا اور اس طرح ان کی جماعت کو تحلیل کردیا گیا۔ اتوار کے انتخابات میں ان کی شمولیت بہت اہمیت کی حامل ہوتی اور ان کے بغیر ان الیکشن کو عالمی طاقتوں نے بدعنوانی سے بھرا ہوا اور غیر شفاف قرار دے دیا ہے۔

بھارت کے دورے پر گئے ہوئے امریکی صدر اوباما نے اصل میں مغربی حکومتوں کے ردعمل کو ایک بنیاد فراہم کی۔ ان کا کہنا تھا کہ میانمار میں جو ہو رہا ہے اس کو الیکشن کا نام دے سکتے ہیں لیکن اس عمل میں آزادی اور شفافیت موجود نہیں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ برسوں سے برمی قوم کو اپنے مستقبل کا تعین کرنے سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اتوار کے الیکشن میں برما کی قدآور سیاسی شخصیت کو نظر بند رکھا گیا اور فوجی حکومت کی حامی اور پسندیدہ جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر انتخابی عمل میں حصہ لیا۔

Dossier Teil 3 Wahlen in Myanmar Birma Burma 2010
الیکشن میں شریک ایک پارٹی کا بینرتصویر: picture alliance/dpa

یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف کیتھرین ایشٹن نے بھی ان اس انتخابی عمل کو مسترد کردیا ہے۔ اپنے بیان میں ایشٹن نے ایک بار پھر گرفتار سیاسی کارکنوں اور لیڈروں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس الیکشن کے کئی پہلو بین الاقوامی معیارات کے مساوی نہیں تھے اور حکومتی جانبداری کا عنصر واضح طور پر نمایاں تھا۔ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کی جانب سے بھی انتخابی عمل کو رد کرنے کا بیان سامنے آیا ہے۔ ہیگ کے مطابق انتخابات کا نتیجہ ووٹنگ سے قبل ہی مرتب ہو چکا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ غیر شفاف الیکشن کسی طور سماجی و سیاسی ترقی کا آئنہ دار نہیں ہوتے۔

فرانسی وزیر خارجہ برنارڈ کوشنر نے بھی انتخابات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس الیکشن میں اپوزیشن جماعتوں بشمول نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی اور دوسری نسلی اقلیتوں کے حقوق کا احترام نہیں کیا گیا ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ نے برمی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں اور اقلیتوں کے ساتھ بامقصد مذاکراتی عمل کو شروع کر کے ملک کے اندر مثبت سیاسی عمل کو یقینی بنائے۔

نیشنل لیگ برائے ڈیموکریسی نے عوام کو انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ مقید لیڈر سوچی کی نظر بندی کی مدت تیرہ نومبر کو ختم ہو رہی ہے۔ اس کا تعین نہیں ہو سکا کہ وہ رہا کردی جائیں گی یا نہیں۔

رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں