1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بریگزٹ سے ڈونلڈ ٹرمپ تک: میرکل کا سیاسی وقار

23 نومبر 2016

ڈنمارک کے ایک قدامت پسند اخبار نےانگیلا میرکل کی بطور جرمن چانسلر چوتھی بار نامزدگی کے تناظر میں کہا ہے کہ جرمنی سمیت تمام یورپی رہنماؤں کو اپنے عوام میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی پر سنجیدگی سے توجہ دینا ہو گی۔

https://p.dw.com/p/2T7t6
Deutschland Generaldebatte im Bundestag zum Haushalts-Etat 2017 Merkel
تصویر: picture-alliance/dpa

ڈنمارک کے ایک قدامت پسند اخبار نے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں انگیلا میرکل کی بطور جرمن چانسلر چوتھی بار نامزدگی کے تناظر میں کہا ہے کہ جرمنی سمیت تمام یورپی رہنماؤں کو اپنے عوام میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی پر سنجیدگی سے توجہ دینی ہو گی۔

قدامت پسند روزنامہ Berlingske نہ صرف ڈنمارک بلکہ دنیا کے قدیم ترین اخباروں میں سے ایک ہے۔ اس اخبار میں امریکا کے حالیہ صدارتی انتخابات میں ریپبلکن سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد متعدد مضامین اور تبصرے شائع ہوئے، جن میں اُن تمام خدشات کا اظہار کیا گیا جو امریکا سمیت تمام دنیا کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں اب پائے جاتے ہیں۔ ڈنمارک کے اس اخبار نے گزشتہ اتوار کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے اُس اعلان پر بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، جس میں میرکل نے نہایت پُر عزم اور مستحکم انداز میں یہ کہا کہ وہ 2017ء میں جرمنی کے پارلیمانی انتخابات میں ایک بار پھر چانسلر کے عہدے کے لیے اپنی نامزدگی کو نہایت اہم سمجھتی ہیں۔ مزید یہ کہ اُن کی قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی سی ڈی یو اور اُس کی ہم خیال اور اُس سے قریب ترین سیاسی پارٹی کرسچین سوشل یونین سی ایس یو نے موجودہ علاقائی اور عالمی صورتحال کے تناظر میں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ یورپ کی اقتصادی شہ رگ سمجھے جانے والے ملک جرمنی کی قیادت پر اِس وقت دُہری ذمہ داری عائد ہے اور اُس کے لیے انگیلا میرکل جیسے مضبوط، ٹھوس اور مخلص قائد کی اشد ضرورت ہے۔

میرکل اور یورپی چیلنجز

ڈنمارک کے اخبار نے تاہم میرکل کی 2017 ء کے لیے بطور جرمن چانسلر نامزدگی کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے چند اہم امور پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ڈینش روزنامے کے ایک حالیہ تبصرے کے الفاظ کچھ یوں تھے،’’امریکا کے صدارتی الیکشن کے نتائج کے اعلان کے فوراً بعد ہی میرکل نے جرمنی اور یورپ میں احتحاجی مہمات کے خلاف لبرل یا آزاد خیال اقدار کی آخری فصیلیں کھڑی کردیں، جن کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مغربی دنیا کو چکرا کر رکھ دیں گی۔ لیکن یہ ایک خطرناک خیال ہے۔ اگر میرکل کی کامیابی یقینی ہو تب بھی دیگر یورپی ممالک کے رہنماؤں کو اپنے عوام میں پائی جانے والے عدم اطمینان کی وجوہات سے نمٹنا ہو گا۔ اور اس ضمن میں سب سے اہم مہاجرین اور تارکین وطن کا بحران ہے۔ یہاں یورپی یونین نے واضح غلطیاں کی ہیں۔ اگر میرکل اور دیگر یورپی رہنماؤں نے کوئی پائیدار اور طویل المیعاد حل تلاش نہ کیا، جو کہ انتہائی دشوار گزار عمل ہوگا، تو میرکل ایک نہایت مشکل صورتحال سے دو چار ہوں گی۔ پھر میرکل کے لیے آئندہ الیکشن میں بطور جرمن چانسلر اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز پیش کرنا مشکل ہوگا۔ خاص طور سے اُن ووٹرز کے سامنے جو اپنے ووٹوں کا حقدار میرکل کو ہی سمجھ رہے ہوں گے۔‘‘

قدامت پسند سیاسی رہنماؤں کی میراث

16 سال سے کرسچین ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو کی قائد چلی آ رہی انگیلا میرکل کا شمار اس وقت دنیا کے طاقتور ترین لیڈروں میں بھی ہو رہا ہے۔ مسلسل تین بار چانسلر کے عہدے پر فائض رہنے کے بعد اگر میرکل چوتھی بار بھی جرمنی کی چانسلر بنیں تو یہ جرمنی کی موجودہ تاریخ کا دوسرا موقع ہوگا۔ ان سے پہلے سی ڈی یو ہی کے سیاستدان ہیلمُوٹ کوہل چار مرتبہ یعنی مسلسل 16 برس تک جرمنی کے چانسلر رہے تھے۔ انہیں جدید جرمنی کے بانی کی حیثیت رکھنے والے معروف جرمن سیاستدان اُٹو فان بسمارک کے بعد طویل ترین عرصے تک چانسلر کے عہدے پر فائض رہنے کا اعزاز حاصل تھا۔

جرمن چانسلر  انگیلا میرکل کو اس وقت دنیا کی ایک ایسی سیاسی شخصیت سمجھا جا رہا ہے، جن کی مہاجر دوست پالیسی کے سبب اندرون ملک کسی حد تک اُن کی مقبولیت میں کمی ضرور پیدا ہوئی لیکن اُنہوں نے اپنا موقف نہ تو تبدیل کیا اور نہ ہی اس ضمن میں انہوں نے یہ تاثر دیا کہ وہ تنقید اور مخالفتوں کے آگے ہتھیار ڈالنے والی سیاستدان ہیں۔ میرکل ایک نہایت مضبوط، ٹھوس اور دور اندیش لیڈر ہیں۔ انہیں ایک محنتی اور اپنے ملک و قوم کے ساتھ انتہائی مخلص رہنما کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔

میرکل کے عزائم

میرکل نے جس وقت چوتھی بار بطور چانسلر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا اُس وقت انہوں نے اُن تمام چیلنجز اور مشکلات کا اعتراف بھی کیا جن کا اُنہیں سامنا ہو سکتا ہے۔  اور مستقبل میں بھی ان کا یہ امیج قائم رہے گا۔

میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو کے لیے ایک بڑا سیاسی چیلنج انتہائی دائیں بازو کی پارٹی اے ایف ڈی بنی ہوئی ہے جو میرکل کی مہاجرین سے متعلق پالیسی کے خلاف اپنی بھرپور مہم جاری رکھے ہوئے ہے اور جرمنی کی 16 صوبائی پارلیمانوں میں سے 10 میں اے ایف ڈی کو نمائندگی حاصل ہو چکی ہے۔ تاہم امریکی وائٹ ہاؤس میں آئندہ برس سے ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی وہ اہم ترین محرک ہے جس کے سبب جرمنی ہی نہیں بلکہ پورے یورپ میں یہ تاثرات پائے جاتے ہیں کہ مغربی اقدار اور یکجہتی کا تحفظ انگیلا میرکل جیسی مضبوط سیاسی شخصیت ہی کر سکتی ہے۔ ایک وسیع تر یورپی، مغربی اور بین الاقوامی پس منظر میں دیکھا جائے تو بہت سے ماہرین کا یہ قول درست نظر آ رہا ہے کہ’’میرکل آزاد دنیا کی نئی قائد ہیں۔‘‘ یاد رہے کہ میرکل نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر انہیں مبارکباد تو پیش کی تھی تاہم ساتھ ہی واضح کر دیا تھا کہ امریکا اور یورپ کے تعلقات اور قریبی تعاون کی بنیاد جمہوری اقدار، آزادی، قانون کے احترام ، رنگ و نسل، مذہب و جنس اور سیاسی نظریات سے بالاتر ہو کر انسانی وقار پر ہی رکھی جانا چاہیے۔