1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بریگزٹ کے خلاف لندن کے ہزاروں شہری سڑکوں پر

شمشیر حیدر2 جولائی 2016

برطانوی دارالحکومت لندن کے ہزاروں شہریوں نے آج برطانیہ کے یورپی یونین سے آئندہ اخراج کے خلاف ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی اور انہوں یورپی یونین کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔

https://p.dw.com/p/1JI0l
Großbritannien Proteste gegen Brexit in London
تصویر: Reuters/P. Hackett

گزشتہ ہفتے ہونے والے ریفرنڈم کا نتیجہ بریگزٹ کے حق میں آنے کے بعد سے برطانیہ سیاسی بے یقینی کا شکار ہے۔ برطانوی دارالحکومت لندن کے شہریوں کی اکثریت نے اس ریفرنڈم میں یورپی یونین میں شامل رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

’مارچ فار یورپ‘ یا ’یورپ کے لیے مارچ‘ نامی یہ مظاہرہ سوشل میڈیا کے ذریعے منظم کیا گیا تھا اور اس میں شرکاء کی اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ اس رنگا رنگ مارچ کے دوران لاؤڈ اسپیکرز پر Never Gonna Give You Up اور I Will always Love You جیسے مشہور انگریزی گیت چلائے جا رہے تھے۔ یورپی یونین کے جھنڈے اوڑھے نوجوانوں نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر یورپی یونین میں شامل رہنے کی حمایت میں بیانات لکھے تھے۔

مظاہرے کے شرکاء نے لندن کے ہائیڈ پارک سے لے کر برطانوی پارلیمان تک تین کلو میٹر طویل مارچ کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ ملکی پارلیمان کے اراکین برطانیہ کو یورپی یونین میں شامل رکھنے کی کوشش کریں گے۔ مظاہرین ’ہم کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ہم یورپی یونین میں رہنا چاہتے ہیں‘ جیسے نعرے بھی لگا رہے تھے۔

مظاہرے میں شامل جنوبی لندن کے ایک پچیس سالہ رہائشی ناتھانیئل سیمسن کا کہنا تھا، ’’ریفرنڈم کا نتیجہ سامنے آنے کے بعد میں ششدر رہ گیا تھا۔ مجھے اپنا مستقبل بالکل غیر یقینی لگ رہا ہے۔ مجھے یہ نتیجہ قبول تو ہے لیکن میں اسے خاموشی سے قبول نہیں کروں گا۔ اسی لیے میں اس مظاہرے میں شامل ہوا ہوں۔‘‘

چونتیس سالہ اطالوی خاتون پامیلا زونی پچھلے چھ برسوں سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ زونی کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے نتائج نے انہیں کافی مایوس کیا ہے اور اب وہ برطانوی شہریت حاصل کرنے کے اپنے گزشتہ فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔

زونی نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ’’میں چاہتی ہوں کہ دوبارہ ریفرنڈم کرایا جائے۔ پہلے ریفرنڈم کے دوران سیاسی مہم میں جھوٹ کا سہارا لیا گیا تھا۔ اس کے باوجود بریگزٹ کی حمایت اور مخالفت میں پڑنے والے ووٹوں کا فرق بہت کم تھا۔ یہ سراسر نا انصافی ہے۔‘‘

’مارچ فار یورپ‘ نامی ریلی کے ایک منتظم کائیرن میکڈرموٹ کا کہنا تھا، ’’اس ریفرنڈم کو ہی حتمی فیصلے کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کے ساتھ بریگزٹ اور اس کے ممکنہ ہولناک نتائج سے بچا جا سکتا ہے۔ برطانیہ کو یونین میں شامل رہنا چاہیے یا نہیں، اس بارے میں حتمی رائے برطانوی پارلیمان کی ہونی چاہیے۔‘‘

دوسری جانب برطانیہ میں سیاسی بے یقینی بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ریفرنڈم کے بعد وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے آئندہ مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا جس کے بعد سے اب تک یہی طے نہیں ہو سکا کہ ان کا ممکنہ جانشین کون ہو گا۔

حزب اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی کے اراکین اپنی جماعت کے سربراہ جیریمی کوربن پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ انہوں نے ریفرنڈم کے دوران یورپی یونین میں شامل رہنے کے لیے حقیقی معنوں میں ایک بھرپور مہم نہیں چلائی تھی۔

بوسہ لو اور یورپی یونین میں شامل رہو

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں