1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں سرکاری ملازمین کے احتجاج پر پابندی

عبدالغننی کاکڑ، کوئٹہ10 نومبر 2015

بلوچستان ہائی کورٹ نے سرکاری ملازمین کے احتجاج پر پابندی عائد کر دی ہے ۔ ڈویژن بنچ نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ آئندہ یہ یقینی بنایا جائے کہ کوئی سرکاری ملازم یا ملازمین کی کوئی تنظیم احتجاج نہ کرے ۔

https://p.dw.com/p/1H3Nu
Pakistan Quetta Sekte Gewalt
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

ایک آئینی پٹیشن پر عدالت عالیہ کے اس حکم پر ماہرین قانون اور دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی اور جسٹس محمد ہاشم پر مشتمل بنچ نے ملازمین کے احتجاج پر پابندی کا حکم آل گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر ایک آئینی پیٹیشن پر دیا ۔

درخواست گزار نے اساتذہ کے الاؤنسز اور دیگر مطالبات سے متعلق عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ ہونے پر عدالت سے رجوع کیا تھا۔

کئی صفحات پر مشتتمل اس حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین باالخصوص اساتذہ، ڈاکٹر ، پیرا میڈیکل اسٹاف اور کلرکس احتجاج یا ہڑتال نہیں کرسکتے۔

حکم نامے میں مذید واضح کیا گیا کہ، ’’اساتذہ اور ڈاکٹروں کے احتجاج سے عوام براہ راست متاثر ہو رہے ہیں اور پرائیویٹ اسکولوں اور اسپتالوں میں تو کوئی احتجاج نہیں ہوتا ۔ احتجاج کی آڑ میں سڑکیں بلاک کر کے عوام کے لیے مشکلات پیدا کرنا قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔ آئندہ جو بھی سرکاری ملازم یا ان کی کوئی تنظیم احتجاج کرے گی تو اس کی ذمہ داری متعلقہ محکمے پر بھی عائد ہو گی۔‘‘

عدالت عالیہ نے حکم نامے میں کہا ہے کہ سرکاری ملازمین کو اگر کوئی مسئلہ درپیش ہے، تو وہ قانونی طریقے سے عدالت سے رجوع کریں اور قانون ہاتھ میں نہ لیں ۔

سرکار کی جانب سے اس کیس کی پیروی ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل شہک بلوچ نے کی ۔ سینئر قانون دان ہادی شکیل ایڈوکیٹ ، مظہرالیاس ناگی اور باز محمد ایڈوکیٹ نے بھی مختلف قانونی پہلوؤں سے عدالت کی معاونت کی۔

معروف دانشور ڈاکٹر حکیم بلوچ کے بقول حکومت کو ایسی قانون سازی کرنی چاہیے جس کے ذریعے عوام کے بنیادی حقوق پامال نہ ہوں ۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،’’یہ بات ٹھیک ہے کہ ہڑتالوں اور دھرنوں سے عام لوگوں کو مشکلات پیش آتی ہیں ۔ لیکن یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اگر سرکاری ملازمین کو مسائل درپیشں ہوں اور محکمے میں ان کی دادرسی کرنے والا کوئی نہ ملے تو وہ کس کا دروازہ کھٹکٹائیں۔ سرکاری ملازمین کے ساتھ ناانصافیاں بھی معمول کا حصہ ہیں جس کے لیے جامع اقدامات کی ضرورت ہے‘‘۔

حکیم بلوچ نے کہا کہ یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ احتجاج وہ سرکاری ملازمین کرتے ہیں جن کی تنظیمیں ویلفیئر یونین کے طور پر رجسٹرڈ ہوتی ہیں ۔

انہوں نے کہا ، ’’دیکھیں ٹریڈ یونین اور ویلفئیر یونین میں بہت فرق ہے۔ قانوں کے مطابق سرکاری ملازمین اگر ویلفئیر یونین کا حصہ ہوں تو وہ ٹریڈ یونین کی طرح احتجاج نہیں کر سکتے، اس کے لیے انہیں قواعد و ضوابط کا خیال رکھنا ہو گا۔ جب حکومت ملازمین کے مسائل پر توجہ نہیں دے گی تو احتجاج تو چلتا رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے ملازمین کے بنیادی حقو ق کی پامالی روکنے کے لئے بھی قدم اٹھائے۔‘‘

معروف قانون دان کامران خان مرتضٰی ایڈوکیٹ کے بقول ملازمین کے احتجاج کے حوالے سے سامنے والا بلوچستان ہائی کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے مگر یہ بھی ضروری ہے کہ سرکاری ملازمین کے مسائل پر بھی ترجیحی بنیادوں پر تو جہ دی جائے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ اس پہلو پر بھی غور کیا جائے کہ سرکاری ملازمین احتجاج کیوں کرتے ہیں؟ انہیں احتجاج پر مجبور کون کرتا ہے؟ میرے خیال میں اس مسئلے کو حل کرنے کے سا تھ ساتھ ان عوامل پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، جن کی وجہ سے احتجاج کا راستہ اپنایا جاتا ہے۔ ہائی کورٹ نے عوام کے دیرینہ مسائل کے حل کے حوالے سے جامع فیصلہ کیا ہے ۔ اب یہ حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ فیصلے پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ گوڈ گورننس پر بھی سنجیدگی سے تو جہ دے تاکہ صوبے میں ہڑتالوں اور دیگر طرح کے احتجاج کی نوبت ہی نہ آئے۔‘‘

بلوچستان ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر اگرچہ سرکاری ملازمین کی نمائندہ تنظیموں کی جانب سے اب تک کوئی باضابطہ موقف سامنے نہیں آیا ہے ۔ تاہم بعض تنظیموں کے عہدایداروں نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمین نے احتجاج کے ذریعے ہمیشہ حقوق کی بات کی ہے ۔

گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے رہنما محمد صابر کے بقول حکومت کو چاہیے کہ سرکاری محکموں میں ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ’’ہم نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ہمارے احتجاج سے عام لوگوں کو کوئی مشکلات پیش نہ آئیں ۔ حکومت اپنے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کرتی ۔ اکثر اوقات قواعد وضوابط کے برعکس ایسے اقدمات اٹھائے جاتے ہیں، جن سے سرکاری ملازمین شدید مایوسی اور کرب کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ جب حکومتی سطح پر داد رسی نہیں ہوتی تو مجبوراحتجاج کا راستہ اپنایا جاتا ہے۔ ہمارا حکومت سے یہ مطالبہ ہے کہ خدارا بیانات کے بجائے ملازمین کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدمات بھی اٹھائے جائیں۔‘‘

ڈاکٹروں کے حقوق کے لئے سرگرم معروف سرجن، بلال امتیاز نے کہا ہے کہ بلوچستان کے ڈاکٹرز عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ حکومت ان کی سیکورٹی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہے ۔