1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بم نہیں ’کلاک‘ تھا، مسلمان طالبعلم نے مقدمہ دائر کر دیا

عدنان اسحاق24 نومبر 2015

امریکا میں بم بنانے کے شبے میں گرفتار کیے جانے والے مسلم نوجوان محمد احمد نے اپنے اسکول اور ارونگ شہر کی انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی دی ہے۔ احمد کے ایجاد کردہ ’کلاک‘ کو بم سمجھ کر اسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1HB81
تصویر: picture-alliance

محمد احمد کی وکیل کیلی ہولنگسورتھ نے بتایا ہے کہ ان کے مؤکل نے پندرہ ملین ڈالر ہرجانے کا دعوٰی کر دیا ہے۔ چودہ سالہ احمد اس وقت راتوں رات ایک معروف شخصیت بن گئے تھے، جب رواں برس جولائی میں ان کی بہن نے ان کی ہتھکڑیوں کے ساتھ ایک تصویر سماجی ویب سائٹ پر جاری کی تھی۔

کیلی ہولنگسورتھ کے مطابق محمد احمد کی شہرت کا ایک سیاہ پہلو بھی ہے، جو ان کے لیے نفسیاتی مسائل کا سبب بن رہا ہے:’’احمد کو واضح طور پر اس کے رنگ، خاندانی پس منظر اور مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ‘‘۔ ہولنگسورتھ نے ایک خط کے ذریعے اپنے مطالبات سے شہری اور اسکول انتظامیہ کو آگاہ کر دیا ہے۔ احمد کے والدین کا تعلق سوڈان سے ہے اور وہ ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس کے ایک نواحی علاقے ارونگ میں رہائش پذیر تھے۔

Barack Obama USA Weißes Haus Washington astronomische Nacht
صدر باراک اوباما نے بھی احمد کو وائٹ ہاؤس میں آنے کی دعوت دی تھیتصویر: picture-alliance/dpa/Jimloscalzo

احمد اپنا تیار کردہ ’کلاک‘ اساتذہ کو دکھانے کے لیے اسکول لے گیا تھا۔ اسکول انتظامیہ نے اس خود ساختہ گھڑی کو بم سمجھ کر پولیس کو مطلع کر دیا اور احمد کو گرفتار کر لیا گیا۔ وکیل کے مطابق احمد کی غلط الزام میں گرفتاری اور حراست کی صورت میں اسکول اور پولیس نے اس کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے اور جب ذرائع ابلاغ کو اس خبر کی اطلاع ملی تو اس طالب علم کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس دوران انہوں نے ارونگ کے میئر بیتھ فان ڈونے کی جانب سے گلین بیک کے ایک ٹی وی شو میں اس گھڑی کو ایک ’جعلی بم‘ قرار دینے کا بھی ذکر کیا۔ اس موقع پر جب اس شو میں موجود دیگر مہمانوں نے اس واقعے کو مغربی تہذیب کے خلاف جہاد کو روکنے کے لیے کی جانے والی اہم کارروائی قرار دیا تو اس پر بھی میئر نے اثبات میں سر ہلایا۔ وکیل کے بقول ’’یہ صرف احمد کے خاندان والوں کے لیے ہی خطرناک نہیں تھا بلکہ اس طرح ان کے امریکا میں محفوظ زندگی گزارنے کے امکانات بھی محدود ہو گئے تھے اور ساتھ ہی یہ ہتک عزت کا بھی معاملہ ہے۔‘‘

Sudan Ahmed Mohamed mit Omar al-Bashir in Khartum
احمد کے والدین کا تعلق سوڈان سے ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Shazly

اس واقعے کے بعد جب احمد کے گھر کا پتہ عام ہوا تو اس کے خاندان والوں کو دھمکی آمیز خطوط اور ای میلز بھی موصول ہوئیں۔ تاہم دوحہ حکومت کی جانب سے ایک متاثر کن وظیفہ ملنے کے بعد سے یہ خاندان قطر منتقل ہو چکا ہے۔

وکیل ہولنگسورتھ نے بتایا کہ اس سلسلے میں اسکول انتظامیہ سے پانچ ملین ڈالر ہرجانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ دس ملین ڈالر کے لیے ارونگ کی شہری حکومت سے رابط کیا گیا ہے۔ ان کے بقول اگر ساٹھ دنوں کے دوران کوئی جواب نہ ملا تو پھر عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔