1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیشی گارمنٹس فیکٹریاں لاکھوں ملازمین کے لیے خطرناک

بینش جاوید 18 دسمبر 2015

بنگلہ دیش میں ملبوسات کی صنعت سے متعلق ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس شعبے میں کام کرنے والے 30 لاکھ افراد زیادتی اور خطرناک حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HPZ8
تصویر: STR/AFP/Getty Images

رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں صرف ایک چوتھائی گارمنٹس تیار کرنے والی فیکٹریوں کو نئے سیفٹی پروگرام کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ 2013 میں رانا پلازہ کے منہدم ہونے کے واقعے کے بعد بنگلہ دیش میں ملبوسات تیار کرنے والی فیکٹریوں کو اپنے ملازمین کے لیے حفاظتی اقدامات اٹھانے کے لیے کہا جاتا رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں گارمنٹس کی برآمدات، دنیا کی دوسری بڑی انڈسٹری ہے اور یہاں حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ملبوسات بنانے والی 81 فیصد فیکٹریاں جو بین الاقوامی اداروں کو اپنا مال بیچتی ہیں، وہ محفوظ ہیں۔

نیو یارک یونیورسٹی کے سینٹر برائے تجارت اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ 7000 میں سے تقریبا نصف فیکٹریاں بین الاقوامی ریٹیلرز کو براہ راست کپڑا برآمد کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی نگرانی کی جاتی ہے لیکن ان میں سے بھی صرف نصف فیکٹریوں کو انڈسٹری کے حفاظتی پروگرام کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔

رانا پلازہ گرنے کے ہولناک حادثےکے بعد یورپی اور امریکی ریٹیلرز نے بنگلہ دیش میں آگ سے بچاؤ، عمارات کی پائیداری اور ملازمین کے تحفظ کے لیے ایک اتحاد قائم کیا، جس کے ذریعے 1900 فیکٹریوں کا باقاعدگی سے معائنہ کیا جاتا ہے۔

تحفظ فراہم کرنے والے اتحاد اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے تحت کرائے جانے والے 3425 معائنوں میں صرف 8 فیکٹریاں پاس ہوئیں۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے، ’’رانا پلازہ واقعے کے بعد گارمنٹس سیکٹرکی اصلاح کا عمل سست روی کا شکار ہے جس کی ایک وجہ مہنگی تعمیراتی تبدیلیاں ہیں جو معائنے کو پاس کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ ‘‘

Bangladesch Arbeiter in der Textilbranche
3425 معائنوں میں صرف 8 فیکٹریاں پاس ہوئیںتصویر: DW/S. Burman

رانا پلازہ سانحے کے بعد کئی ممالک کی حکومتوں، بین الاقوامی ریٹیلرز اور ترقیاتی اداروں نے بنگلہ دیش میں ملبوسات کی انڈسٹری کے لیے 280 ملین ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن رپورٹ کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ یہ پیسہ کہاں خرچ کیا جا رہا ہے اور یقینی طور پر یہ پیسہ ان ہزاروں فیکٹریوں میں حفاطتی اقدامات پر عل درآمد کے لیے خرچ نہیں کیا جا رہا جو بالواسطہ طور پر اپنا مال برآمد کرتی ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یورپی اور امریکی ریٹیلرز کی جانب سے بنائے گئے اتحادی پروگرام کے تحت 100 ملین ڈالر پانچ برس کے لیے ان فیکٹریوں کے لیے مختص کیے گئے تھے جو بین الاقوامی ریٹیلرز کو براہ راست اپنا مال درآمد کرتی ہیں ایسی فیکٹریاں جو اپنے سرمایے سے بھی حفاظتی اقدامات اٹھا سکتی ہیں۔

رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ ایسی فیکٹریوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو شفافیت اپناتی ہیں، فیکٹریوں کے معائنوں کو بھی بڑھانا چاہیے اور حفاظتی اقدامات اٹھانے میں غفلت برتنے والی فیکٹریوں کے خلاف کارروائی کی جانا چاہیے۔