1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: دو اپوزیشن رہنماؤں کی سزائے موت برقرار

افسر اعوان18 نومبر 2015

بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین عدالت نے اپوزیشن کے دو رہنماؤں کی سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا ہے۔ ان رہنماؤں کو 1971ء میں پاکستان سے علیحدگی کے وقت پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/1H7aL
تصویر: picture-alliance/dpa/Stringer

بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ علی حسن محمد مجاہد اور صلاح الدین قادر چوہدری کی طرف سے اپنی سزائے موت کے خلاف دائر کی جانے والی آخری اپیل پر دیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس فیصلے کے بعد اگر ملکی صدر کی طرف سے ان کی جان بخشی نہ کی گئی تو ان دونوں افراد کو آئندہ ہفتے کے آغاز تک تختہ دار پر لٹکایا جا سکتا ہے۔

بنگلہ دیش کے اٹارنی جنرل محبوب عالم کے مطابق، ’’اس فیصلے نے پوری قوم کی خواہشات کی تکمیل کی ہے۔ اب ان لوگوں کو سزائے موت دیے جانے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔‘‘

قبل ازیں دو دیگر اپوزیشن رہنماؤں کی طرف سے بھی سزائے موت کی حتمی عدالتی اپیل خارج کیے جانے کے فوری بعد ان کی سزائے موت پر عملدرآمد کر دیا گیا تھا۔ اُن رہنماؤں نے صدر سے رحم کی اپیل کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے۔

67 سالہ علی حسن محمد مجاہد بنگلہ دیش کی مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے دوسرے سینیئر ترین رہنما ہیں جبکہ 66 سالہ چوہدری بنگلہ دیش میں مرکزی اپوزیشن رہنما خالدہ ضیا کی سیاسی جماعت کے سینیئر رہنما ہیں۔

یہ دونوں رہنما ان درجن بھر سے زائد اپوزیشن رہنماؤں میں شامل ہیں جنہیں ملک میں 2010ء میں قائم کیے جانے والے جنگی جرائم کے متنازعہ ٹریبونل کی طرف سے سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ اُن سزاؤں کے ردعمل میں ملک میں آزادی کے بعد کے بدترین فسادات ہوئے۔ زیادہ تر جماعت اسلامی اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں 500 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

فیصلہ سنائے جانے سے قبل دارالحکومت ڈھاکا میں اضافی طور پر سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا
فیصلہ سنائے جانے سے قبل دارالحکومت ڈھاکا میں اضافی طور پر سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman

اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیشی سپریم کورٹ کی طرف سے اپیل خارج کیے جانے کے بعد اس بات کے خدشات پائے جاتے ہیں کہ ملک میں دوبارہ بد امنی کا آغاز ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلہ سنائے جانے سے قبل دارالحکومت ڈھاکا میں اضافی طور پر سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔ ڈھاکا پولیس کے ترجمان منتصر الاسلام نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم نے تشدد روکنے کے لیے اچھی خاصی تعداد میں سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کر دیا ہے۔ ہم پورے شہر میں چوکس رہیں گے۔‘‘

یہ عدالتی فیصلہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب آج بدھ 18 نومبر کو ہی نامعلوم افراد نے ایک اطالوی پادری کو فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا۔ ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔ اس سے قبل غیر ملکیوں پر اس طرح کے حملوں کی ذمہ داری عسکریت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے قبول کی گئی تھی۔ تاہم وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کا اصرار ہے کہ بنگلہ دیش میں اسلامک اسٹیٹ کا کوئی وجود نہیں ہے۔