1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: فیکٹری میں آتشزدگی، 52 ہلاک

9 جولائی 2021

ڈھاکہ میں واقع ایک فیکٹری کی عمارت میں بہت بڑے پیمانے پر آگ بھڑکنے کے سبب کچھ لوگوں نے اپنی جان بچانے کے لیے کھڑکیوں سے باہر چھلانگیں لگا دیں۔ یہ امر ہنوز غیر واضح ہے کہ کتنے لوگ فیکٹری کے اندر پھنسے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3wGOL
Weltspiegel | Dhaka, Bangladesch | Großbrand in Lebensmittelfabrik
تصویر: Mohammad Ponir Hossain/Reuters

پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے مضافاتی صنعتی علاقے روپ گنج میں قائم فیکٹری ' ہاشم فوڈ اینڈ بیوریجز‘ میں آگ لگنے کا یہ واقعہ جمعرات کی شب مقامی وقت کے مطابق قریب پانچ بجے شام کو پیش آیا تھا تاہم جمعے کی صبح تک اس فیکٹری سے آگ کے شعلے بھڑکتے دکھائی دیے۔ دریں اثناء فیکٹری میں کام کرنے والے کارکنوں کے رشتہ داروں اور فیکٹری کے دیگر ورکرز نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کچھ دیگر کارکن فیکٹری کی عمارت میں ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں اور یہ جان بچا کر فرار ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

بنگلہ دیش فیکڑی حادثہ: ’امدادکے وعدے وفا نہ ہوئے‘

فیکٹری کے درجنوں کارکن لاپتہ

مقامی پولیس چیف جایید العالم نے گزشتہ رو‍ز خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو اس حادثے کی ابتدائی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ،'' آتشزدگی کا شکار ہونے والے تین افراد زخموں کی تاب نہ لا تے ہوئے انتقال کر گئے۔‘‘ تاہم تازہ اطلاعات کے مطابق اس حادثے میں اب تک کم از کم 52 افراد کی اموات کی تصدیق ہوچکی ہے۔ قبل ازیں پولیس انسپکٹر شیخ کبیرالاسلام نے اپنے بیان میں کہا کہ آگ لگنے کے اس حادثے میں کم از کم 30 افراد زخمی ہوئے تھے جن میں سے کچھ اس چھ منزلہ عمارت میں آگ کے شعلے تیزی سے بھڑکنے کے بعد بالائی منزل سے کود پڑے تھے۔

بنگلہ دیش فیکٹریوں میں مزدوروں کی زندگیاں خطرے میں

Bangladesch Dhaka, Rupganj | Brand der Fabrik Hashem Foods Ltd.
روپ گنج میں قائم فیکٹری ' ہاشم فوڈ اینڈ بیوریجز‘ میں آگ لگنے کا منظرتصویر: Mohammad Ponir Hossain/REUTERS

پولیس کے مطابق فیکٹری کے درجنوں کارکن لاپتہ ہیں تاہم پولیس نے بعد ازاں اپنے بیان سے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ کتنے افراد عمارت میں پھنسے ہوئے ہیں۔

آگ بجھانے والے عملے کے ایک ترجمان دبا شش بردھان نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا، ’’جب آگ پر مکمل طور پر قابو پالیا جائے گا تب ہم فیکٹری کے اندر سرچ آپریشن کر کے ہی بتا سکیں گے کہ اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد کتنی ہے۔‘‘ اُدھر فائر فائٹرز نے فیکٹری کی عمارت کی چھت، جہاں نوڈلز اور مشروبات تیار کی جاتی تھیں، سے 25 افراد کو بچایا تھا۔

ڈھاکا کی فیکٹریوں میں شدید حبس کے بعد خوف و ہراس

دریں اثناء ’ہاشم فوڈ اینڈ بیوریجز‘ فیکٹری میں آگ لگنے کے حادثے میں بچ کر فرار ہونے میں کامیاب ہونے والے ایک ورکر محمد سیفل نے بتایا کہ جب آگ کے شعلے بھڑکنا شروع ہوئے تو فیکٹری کے اندر درجنوں کار کن موجود تھے۔ ان کا کہنا تھا،'' تیسری منزل پر دونوں سیڑھیوں کے دروازے بند کر دیے گئے تھے۔ دیگر ساتھی یہ کہہ رہے ہیں کہ اُس وقت فیکٹری کے اندر 48 افراد موجود تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔‘‘

بنگلہ دیشی گارمنٹس فیکٹریاں لاکھوں ملازمین کے لیے خطرناک

Bangladesch Dhaka, Rupganj | Brand der Fabrik Hashem Foods Ltd.
درجنوں لوگ اس عمارت میں پھنسے ہوئے ہیںتصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

'فیکٹری کو سیاہ دھوئیں نے ڈھانپ لیا‘

فیکٹری کے ایک اور کارکن مامون نے بتایا کہ وہ خود اور 13 دیگر ورکرز آگ بھڑکتے ہی چھت کی طرف بھاگے اور دیکھتے دیکھتے فیکٹری کو سیاہ دھوئیں نے پوری طرح ڈھانپ لیا۔ مامون نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''آگ بجھانے والے عملے کے کارکنوں نے ہمیں رسی کے ذریعے نیچے اتارا۔‘‘ فیکٹری کی آتشزدگی کے سبب عمارت کے ارد گرد پھیلنے والے سیاہ دھوؤں کو دیکھتے ہی سینکڑوں افراد اپنے لواحقین کی خیریت جاننے کے لیے عمارت کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ انہی میں سے ایک نذرالاسلام بھی تھے جنہوں نے کہا، '' ہم یہاں اس لیے پہنچے کہ میری بھانجی کچھ دیر سے ہماری فون کال کا جواب نہیں دے رہی تھی اور اب تو فون کی گھنٹی بھی نہیں بج رہی ہے۔ ہم بہت پریشان ہیں۔‘‘رانا پلازہ کے متاثرین تین برس بعد بھی انصاف کے متلاشی

 

بنگلہ دیش میں حفاظتی ضوابط کے نفاذ کے انتہائی سست اور ڈھیلے ہونے کی وجہ سے اکثر فیکٹریوں کی عمارتوں میں آگ لگنے کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ فروری 2019 ء میں ڈھاکہ کی ایک رہائشی عمارت کے مختلف بلاکس میں آگ لگنے کے حادثے میں 70 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ک م/  اے پی/ اے ایف پی