1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں تین مشتبہ جنگجو خواتین گرفتار

2 جولائی 2017

بنگلہ دیش میں ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘ کے ساتھ روابط کے شبے میں تین مشتبہ جنگجو خواتین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں ڈھاکا کے کیفے پر ہونے والے ایک خونریز حملے کا الزام بھی اسی گروہ پر عائد کیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2fmWx
Bangladesch Dhaka Anschlag Holey Artisan Bakery Polizei
تصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بنگلہ دیشی حکام کے حوالے سے دو جولائی بروز اتوار بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے ایک تازہ کارروائی میں تین مشتبہ خواتین کو حراست میں لے لیا ہے۔ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان خواتین کا تعلق کالعدم ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘ سے ہے، جس پر ملک میں ہونے والے متعدد حملوں کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

بنگلہ ديش: پوليس کی کارروائی ميں پانچ مشتبہ انتہا پسند ہلاک

بنگلہ دیش: احمدی مذہبی رہنما پر حملہ، حالت تشویش ناک

بنگلہ دیش: دہشت گردوں کے ایک ٹھکانے پر چھاپہ، 6 ہلاک

اسی انتہا پسند گروہ کو سن دو ہزار سولہ میں ڈھاکا کے اس کیفے پر حملے میں بھی ملوث قرار دیا جاتا ہے، جس میں بائیس افراد مارے گئے تھے۔ ان ہلاک شدگان میں زیادہ تر غیر ملکی تھے اور کہا جاتا ہے کہ اس کیفے کو نشانہ بھی اسی لیے بنایا گیا تھا کیونکہ وہ غیر ملکیوں میں مقبول تھا۔ اس خونریز کارروائی کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے ’جہادی عناصر‘ کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی پیدا کر دی تھی۔

ڈھاکا پولیس کے اعلیٰ اہلکار نور حسین نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ اسی کریک ڈاؤن کے سلسلے میں ہفتے کے شب دارالحکومت ڈھاکا سے دو سو اٹھائیس کلومیٹر دور واقع کوشتیا ضلع میں ایک چھاپہ مار کارروائی کی گئی، جس دوران تین خواتین کو گرفتار کر لیا گیا۔

نور حسین کے مطابق ایک خاتون نے خود کش جیکٹ پہن رکھی تھی اور جب اسے کہا گیا کہ وہ خود کو پولیس کے حوالے کر دے تو اس نے دھماکا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی، ’’ہم نے اسے نقصان پہنچائے بغیر ہی گرفتار کر لیا۔ بعد میں اس نے اعتراف کیا کہ وہ دھماکا نہیں کر سکی۔ اگر دھماکا ہوتا تو بڑا جانی نقصان ہو سکتا تھا۔‘‘

پولیس نے بتایا ہے کہ گرفتار کی جانے والی ان خواتین میں وہ تیس سالہ خاتون بھی شامل ہے، جو ’جماعت المجاہدین بنگلہ دیش‘  کے موجودہ چیف ایوب باچو کی اہلیہ ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ مفرور ایوب اس مقام پر اکثر آتا رہتا تھا۔ نور حسین کے بقول ان خواتین کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے گھر سے دس کلو گن پاؤڈر، دو خود کش جیکٹیں اور ایک پستول بھی برآمد کر لیا گیا ہے۔ ساتھ ہی وہاں سے برآمد ہونے والے دو بچوں کو محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا ہے۔

بنگلہ دیش میں حالیہ برسوں کے دوران انتہا پسندوں کی پرتشدد کاروائیوں میں تیزی نوٹ کی جا رہی ہے۔ اس دوران درجنوں غیر ملکی، بلاگرز، سیکولر کارکنوں اور اقلیتی کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ ان میں سے متعدد کارروائیوں کی ذمہ داری داعش یا القاعدہ کے مقامی گروہ قبول کر چکے ہیں لیکن وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں غیر ملکی جنگجوؤں کی موجودگی نہیں ہے بلکہ اس شورش کے ذمہ دار مقامی جنگجو گروہ ہیں۔ تاہم ڈھاکا کیفے حملے کے بعد سکیورٹی اہلکار تقریبا 70 مشتبہ انتہا پسندوں کو ہلاک کر چکے ہیں جبکہ درجنوں مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔