1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں سات سال بعد پہلے عام انتخابات

Abid Hussain Qureshi29 دسمبر 2008

بنگلہ دیش میں آج پیر کے روز عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی جماعتیں بھی چند روز پہلے تک بھرپور انداز میں اپنی انتخابی مہم چلائے ہوئے تھیں جس کے بعد آج وہاں ووٹنگ ہورہی ہے۔

https://p.dw.com/p/GNmF
بنگلہ دیشی عوامی لیگ کی ایک انتخابی ریلی میں شریک ووٹرتصویر: Mustafiz Mamun

بنگلہ دیش میں پیر کے روز منعقد ہونے والے انتخابات کے لئے پینتیس ہزار سے زائد پولنگ سٹیشن قائم ہیں۔ اِن پولنگ سٹیشنوں پر امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے کے لئے چھ لاکھ پولیس اہلکاروں کی مدد کے لئے پچاس ہزار فوجی بھی ہمہ وقت تیار ہیں۔ اِس کے علاوہ چھ ہزار ایلیٹ فوجی دستے بھی فوری ایکشن کے لئے موجود ہیں۔ انتخابی عمل کی نگرانی کے لئے ہیلی کاپٹر فضا میں گردش کررہےہیں۔

Bangladesch Wahlen 2008
گرینڈ الائنس کے ایک اُمیدوار جہانگیر کبیر نانک ڈھاکہ میں اپنی انتخابی مہم کے دورانتصویر: Mustafiz Mamun

چند روز قبل تک سیکیورٹی خدشات کے تناظر میں دو درجن مشتبہ انتہاپسندوں کو حراست میں لےلیا گیا تھا۔ اِن کے قبضے سے دستی بموں کے علاوہ بارودی اور دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کیا گیاتھا۔ بنگلہ دیش کی وزارت داخلہ کے ترجمان شاہی نور میاں کے مطابق یہ انتخابات یقیناً ملکی تاریخ کے پرامن ترین الیکشن کہے جا سکیں گے۔

انتخابات سے کچھ ہی روز قبل شمالی بنگلہ دیش میں سابق فوجی ڈکٹیٹر حسین محمد ارشاد کی گاڑی پر اس وقت کچھ افراد نے حملہ کردیا تھا جب وہ اپنی جاتیا پارٹی کی انتخابی مہم پر جا رہے تھے۔

29 دسمبر کے روز رائے دہی سے پہلے انتخابی مہم کے آخری دِن یعنی ہفتہ کو بنگلہ دیش کی دونوں بڑی جماعتوں نے انتخابی ریلیوں کے علاوہ کارنر میٹنگز کا بھی اہتمام کیا۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور عوامی لیگ بڑی سیاسی جماعتیں ہیں اور بنگلہ دیشی سیاست فی الحال اِنہی دونوں جماعتوں کے گرد گھومتی ہے۔ اِن الیکشنز میں بھی کامیابی اِن دونوں میں سے ہی کسی ایک جماعت کے حصے میں آنے کا امکان ہے۔

اب تک کے اندازوں کے مطابق عوامی لیگ کے حق میں عوامی رائے جا سکتی ہے۔ لیکن اُس کا بھی تین سو نشستوں والے ایوان (قومی اسمبلی) میں ایک سو اکیاون سیٹیں حاصل کرنے کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ نتیجتاً ایک معلق پارلیمنٹ کے وجود میں آنے کا امکان زیادہ ہے۔

Bangladesch Wahlen 2008
آزاد اُمیدوار سعید حسین چوہدری ڈھاکہ کے موگا بازار میں اپنے حلقے کے عوام سے ملاقاتیں کر رہے ہیںتصویر: Mustafiz Mamun

موجودہ بنگلہ دیشی سیاسی منظر نامہ دو خواتین سے سجا ہوا ہے۔ دونوں سابقہ وزرائے اعظم ہیں۔ عوامی لیگ کی شیخ حسینہ اور نیشنلسٹ پارٹی کی خالدہ ضیا۔ اگر ایک جانب خالدہ ضیا شہروں شہروں اپنی انتخابی مہم چلانے کے بعد ڈھاکہ پہنچی ہیں تو شیخ حسینہ نےبھی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے گڑھ چٹاگانگ پہنچ کر وہاں کے ووٹرز کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کے بعد واپس آتے ہوئے راستے میں آدھی درجن انتخابی ریلیوں سے خطاب کیا۔ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی لیڈر خالدہ ضیا نے الیکشن مہم میں کئی شہروں اور دیگر قصبوں کا دورہ کیا جب کہ انتہاپسندوں کے کسی ممکنہ حملے کے باعث شیخ حسینہ نے بیشتر انتخابی ریلیوں سے ٹیلیفون اور ویڈیو فون کے ذریعے خطاب کیا۔

Bangladesch Wahlen 2008
نیا پلٹن، ڈھاکہ میں بنگلہ دیشی نیشنلسٹ پارٹی BNP کے ہیڈکوارٹر پر انتخابی گہما گہمیتصویر: Mustafiz Mamun

بنگلہ دیش میں آج پیر 29 دسمبر کے الیکشن گزشتہ سات برسوں میں ہونے والے پہلے جمہوری انتخابات ہیں اور یہ گزشتہ دو سال سے قائم فوج کی حمایت یافتہ حکومت کا منطقی انجام بھی ہوں گے۔ عبوری حکومت جنوری سن 2007 سے قائم ہے جب امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب ہونے اور ہلاکتوں کے باعث فوج کی مداخلت سے عام انتخابات منسوخ کر دیئے گئے تھے۔ عبوری حکومت کے دور میں بڑی پارٹیوں کی دونوں خواتین رہنماؤں کو کرپشن کے الزامات کے تحت جیل بھی جانا پڑاتھا۔

بنگلہ دیش میں ان انتخابات کی شفافیت کو پرکھنے کے لئے دو لاکھ مبصرین موجود ہیں۔ اِن میں سے ڈھائی ہزارغیر ملکی ہیں۔