1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش میں ہنگامی حالت کا اختتام

17 دسمبر 2008

بنگلہ دیش میں فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت نے ایک ہفتہ قبل اعلان کیا تھا کہ ایمرجنسی کا نفاذ ختم کردیا جائے گا۔ عام انتخابات سے بارہ دِن قبل یہ اٹھا لی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/GHYr
بنگلہ دیش کے عبوری حکومت کے صدر اعجاز الدین احمدتصویر: AP

بنگلہ دیش میں بارہ دِن بعد عام انتخابات کا انعقاد ہو نا ہے۔ عبوری حکومت کے نے وعدے کے مطابق ایمرجنسی ملک سے اٹھا لی ہے۔ اب یہ اہم ہے کہ کیا عبوری حکومت انتیس دسمبر کے الیکشن کے نتیجے میں منتخب ہونے والی سیاسی قیادت کے حوالے اقتدار کردے گی یا اُس میں لیت و لال کیا جائے گا۔

بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ عبوری حکومت پوری طرح تیار ہے کہ وہ اقتدار عوامی نمائندوں کو سونپتے ہوئے حکومتی منظر سے کنارہ کش ہو جائے گی۔ انتیس دسمبر سے قبل ایمرجنسی کا نفاذ ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کا بھی مطالبہ تھا۔

Ausnahmezustand in Bangladesch
گیارہ جنوری سن دو ہزار سات کو ایمرجنسی نفاذ کے بعد شہر میں تعینات ہوتے فوجی دستےتصویر: AP

انتخابی مہم ایک طرح سے گزشتہ جمعرات سے شروع ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور عوامی لیگ نے ووٹروں سے رابطوں کا آغاز کردیا ہے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی خاتون لیڈروں خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ سابقہ وزرائے اعظم ہیں اور اُن کو مالی بد عنوانیوں کے مقدمات کا سامنا ہے۔ دونوں لیڈر ضمانتوں پر رہا ہیں۔

Bildcombo Sheikh Hasina und Khaleda Zia
بنگلہ دیش کی مرکزی پارٹیوں کی خاتون لیڈران: شیخ حسینہ اور خالدہ ضیاءتصویر: AP/DW

بنگلہ دیش میں ایمرجنسی کا نفاذ جنوری سن دو ہزار سات میں ہوا تھا۔ عبوری حکومت میں براہ راست فوج سامنے نہیں تھی لیکن پس پردہ فوجی ہاتھ محسوس کئے جاتے رہے ہیں۔ ایمرجنسی کا نفاذ صدر اعجاز الدین احمد نے کیا تھا۔ اُس وقت سارا ملک الیکشن اصلاحات کے خلاف گلیوں اور سڑکوں پر ہنگاموں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا۔ اُن ہنگاوں میں معصوم انسانی جانوں کا بھی ضیاع ہوا تھا۔ ہلاک ہونے والوں کی تعداد پینتیس تھی۔

الیکشن اصلاحات کے مطابق ووٹرز کی فوٹو رجسٹریشن کی گئی ہے جس سے سوا کروڑ جعلی ووٹروں کے نام خارج کئے گئے ہیں جو سابقہ الیکشن میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔

Wahlkampf in Bangladesch
عوامی لیگ کے کارکن سیاسی نعرہ بازی کرتے ہوئے۔تصویر: AP

بنگلہ دیش میں ایمرجنسی اٹھائے جانے کا اعلان، آزادی کے دِن سے ایک روز بعد کیا گیا ہے۔ یوم آزادی پر فوج کے سربراہ جنرل معین یُو احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ آزادی کے بعد سے مسلسل فوج ملک میں امن و سلامتی کے قیام کی کوششوں میں مصروف رہی ہے اوراقوام متحدہ کی کمانڈ میں بھی وہ یہ کردار مختلف ملکوں میں سرانجام دے رہی ہے۔ وہ ملکی سیاست میں کسی کردار کی طلب گار نہیں ہے۔

دوسری جانب انتیس دسمبر کے انتخابات کے لئے سکیورٹی کو چوکس کردیا گیا ہے۔ ویسے بنگلہ دیش کے طول و عرض میں حکومتی راہ داریوں کے علاوہ گلی محلوں میں بھی لوگ اسلامی انتہاپسندوں کی جانب سے کسی دہشت گردانہ کارروائی کا احساس رکھتے ہیں۔ بتگلہ دیش کے لیکشن کمیشنر سخاوت حسین کے مطابق تین لاکھ سکیورٹی اہلکار عام انتخابات کے لئے قائم ہونے والے پینتیس ہزار پولنگ سٹیشنوں پر تعینات کئے جائیں گے۔ قومی پولیس کے سربراہ نور محمد کا بھی خیال ہے کہ الیکشن اور انتخابی مہم کے دوران صورت حال کنٹرول میں رہے گی اور کوئی ناخوشگوار واقعہ اِس دوران رونما نہیں ہو گا کہ جس سے انتخابی عمل متاثر ہو۔

بنگلہ دیش کے سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عوامی جھکاؤ شیخ حسین کی عوامی لیگ کی جانب دکھائی دیتا ہے اور جس سے اُن کے عام انتخابات میں کامیابی کے واضح نشانات مل رہے ہیں لیکن انتخابی مہم کے دوران ہوا تبید ہو سکتی ہے۔