1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش پھر سیاسی کشمکش کی طرف بڑھتا ہوا

14 نومبر 2010

اتوار کوبنگلہ دیش کے بڑے شہروں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی ہو گئے جبکہ بڑی اپوزیشن جماعت BNP کی طرف سے ملک گیر ہڑتال کی اپیل نے کاروبارِ زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔

https://p.dw.com/p/Q8Nl
ڈھاکہ: پولیس اور مظاہرین آمنے سامنےتصویر: AP

یہ مظاہرے کل ہفتے کو ہی اُس وقت شروع ہو گئے تھے، جب یہ خبر منظرِ عام پر آئی تھی کہ بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی کی قائد اور سابق خاتون وزیر اعظم بیگم خالدہ ضیاء کو دارالحکومت ڈھاکہ میں اُن کے اُس گھر سے نکال دیا گیا ہے، جہاں وہ گزشتہ 38 برسوں سے رہ رہی تھیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ بیگم ضیاء نے رضامندی کے ساتھ اپنا وہ وسیع و عریض گھر چھوڑا، جو اُنہیں اُن کے شوہر اور سابق صدر ضیاء الرحمان کے قتل کے بعد حکومت کی طرف سے پٹے پر دیا گیا تھا۔ عدالت کی طرف سے اِس گھر کو خالی کر دینے کے لئے دئے گئے الٹی میٹم کی مدت جمعہ 12 نومبر کو ختم ہو گئی تھی۔

تاہم صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے بیگم ضیاء نے کہا کہ پولیس افسر اُن کی خواب گاہ میں گھس گئے، اُنہیں گھسیٹ کر باہر نکالا گیا اور ایک کار میں دھکیل دیا گیا تھا۔ بیگم ضیاء کا موقف ہے کہ اُنہیں اُن کی رہائش گاہ سے غیر قانونی طور پر نکالا گیا ہے کیونکہ نچلے درجے کی عدالت کی طرف سے گھر خالی کرنے کے احکامات کے خلاف ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں کی گئی اپیل کی سماعت ابھی جاری ہے۔

Bangladesch Wahlen 2008
بی این پی کی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء دو بار بنگلہ دیش کی وزیر اعظم رہ چکی ہیںتصویر: Mustafiz Mamun

بی این پی کی طرف سے اتوار کو ملک بھر میں ہڑتال کی اپیل کی گئی تھی۔ پولیس اہلکاروں نے ڈھاکہ میں پارٹی ہیڈ کوارٹر اور ملک کے دوسرے بڑے شہر چٹاگانگ میں پارٹی کے علاقائی دفتر کے باہر جمع بی این پی کے حامیوں کے خلاف ربڑ کی گولیاں استعمال کیں اور اُن پر لاٹھی چارج کیا۔ چٹاگانگ میں زخمی ہونے والوں میں ایک سابق وزیر تجارت بھی شامل تھے جبکہ شمالی شہر میمن سنگھ میں ایک چھوٹے بم کی زَد میں آ کر ایک پولیس انسپکٹر زخمی ہو گیا۔

پولیس کے ایک ترجمان ولید حسین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک آتش گیر بم لگنے سے پولیس کی ایک وَین جل کر راکھ ہو گئی اور یہ کہ ڈھاکہ میں سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے ہیں۔ ترجمان کے مطابق ڈھاکہ کی سڑکوں پر مسلح پولیس کے کم از کم دَس ہزار اہلکاروں کے علاوہ ایک سریع الحرکت فورس کے دو ہزار ارکان بھی تعینات کئے گئے ہیں۔ ترجمان نے بتایا کہ دارالحکومت میں پولیس نے کئی مقامات پر اپوزیشن مظاہرین کے خلاف لاٹھی چارج، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا ہے تاہم مجموعی طور پر ہڑتال پُر امن جا رہی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں پر بم اور اینٹیں پھینکنے اور گاڑیوں کو نقصان پہنچانے کے الزامات کے تحت بی این پی کے کم از کم ایک سو کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش میں اتوار کو عام تعطیل نہیں ہوتی لیکن ہڑتال کے باعث دکانیں، کاروباری مراکز اور اسکول بند رہے جبکہ ٹریفک کا پورا نظام بھی مفلوج رہا، جس کے باعث ہزارہا افراد دارالحکومت سے عیدالاضحیٰ منانے کے لئے ملک کے دیگر دور دراز علاقوں میں واقع اپنے گھروں کو روانہ نہ ہو سکے۔

گزشتہ شب دارالحکومت ڈھاکہ سے مغرب کی جانب حکمران عوامی لیگ کے ایک رکنِ پارلیمان کے گھر پر ایک خود کُش حملے میں کم از کم تین افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اِس واقعے کا بیگم خالدہ ضیاء سے اُن کا گھر خالی کروانے کے واقعے سے کوئی تعلق ہے۔

ایک نجی کمپنی کے لئے کام کرنے والے اسد اللہ حبیب نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ وہ خالدہ ضیاء کو گھر سے نکالنے کے اقدام اور بی این پی کی طرف سے ہڑتال کی اپیل دونوں ہی کے خلاف ہیں:’’یہ سیاستدانوں کے کھیل ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے عام آدمی خواہ مخواہ یرغمال بن جاتے ہیں۔‘‘

رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں