1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: کام زیادہ لیتے ہیں، اجرت کم دیتے ہیں

24 اپریل 2017

چار برس پہلے بنگلہ دیش میں رانا پلازہ کی عمارت منہدم ہونے سے گیارہ سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے پر احتجاج کے بعد سے ملک میں کام کاج کے حالات تو کچھ بہتر ہوئے ہیں لیکن تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا۔

https://p.dw.com/p/2bnYe
Bangladesch 4. Jahrestag Einsturz Textilfabrik
تصویر: Getty Images/AFP

عاشق اور ان کی اہلیہ راہ نور دونوں ہی دارالحکومت ڈھاکا کے مضافات میں واقع کپڑے بنانے کی ایک فیکڑی میں کام کرتے تھے۔ ان کا پانچ سالہ بیٹا گردوں میں درد کی وجہ سے بیمار ہے لیکن ان دونوں کے پاس اب اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ کسی اچھے ڈاکٹر سے اس کا علاج کروا سکیں۔

عاشق فیکڑی میں پتلونیں اور شرٹیں طے کر کے رکھتا تھا جبکہ ان کی اہلیہ سلائی کی ایک مشین پر کام کرتی تھیں۔ یہ دونوں وہ لباس تیار کرتے تھے، جنہیں بعد ازاں یورپ کے مشہور برانڈز ایچ اینڈ ایم اور زارا جیسے ادارے مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔

جب یہ دونوں میاں بیوی ایک دن میں چودہ چودہ گھنٹے کام کرتے تھے تو پھر کہیں جا کر ان کی آمدنی تقریباﹰ بیس ہزار پاکستانی روپے کے قریب بنتی تھی۔ حکومتی سطح پر بنگلہ دیش میں کم از کم اجرت کی حد تقریباً سات ہزار روپے مقرر ہے۔

Bangladesch - Vier Jahre nach dem Fabrikeinsturz von Rana Plaza
عاشق فیکڑی میں پتلونیں اور شرٹیں طے کر کے رکھتا تھا جبکہ ان کی اہلیہ سلائی کی ایک مشین پر کام کرتی تھیںتصویر: DW

عاشق کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’کام بہت ہی مشکل ہوتا تھا۔ جب ہم گھر واپس پہنچتے تھے تو نڈھال ہو چکے ہوتے تھے اور کوئی دوسرا کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے تھے۔‘‘

یہ رقم ان دونوں کے کھانے پینے کے لیے تو کافی تھی لیکن ڈاکٹر سے علاج اور دیگر ضروریات کے لیے ناکافی تھی۔ یہ دونوں بچت بھی کرتے تھے اور اس بچت کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ کسی نہ کسی دن ایک ٹیلی وژن بھی خرید سکیں۔

’احتجاج کا مطلب ملازمت سے ہاتھ دھونا‘

دسمبر دو ہزار سولہ میں عاشق اور ان کی اہلیہ ان لوگوں کے ساتھ احتجاج میں شامل ہو گئے، جو بہتر تنخواہوں کے لیے مظاہرے کر رہے تھے۔ اس احتجاج کی وجہ سے بنگلہ دیش کی پچپن فیکڑیاں ایک ہفتے تک بند رہی تھیں۔

 یہ احتجاج پولیس کی مداخلت سے ختم کیا گیا۔ ایک رات عاشق کے دروازے پر دستک ہوئی اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔ عاشق دو ماہ تک جیل میں رہا۔ عاشق کے ساتھ دیگر پینتیس افراد کو بھی قید کر دیا گیا اور احتجاج کرنے والے پندرہ سو ملازمین کو نوکریوں سے بھی فارغ کر دیا گیا۔ ان ملازمین کے نام ایک بلیک لسٹ میں شامل کر دیے گئے ہیں اور اب انہیں کوئی بھی ملازمت دینے پر تیار نہیں ہے۔

Bangladesch - Vier Jahre nach dem Fabrikeinsturz von Rana Plaza
عاشق کا پانچ سالہ بیٹا گردوں میں درد کی وجہ سے بیمار ہےتصویر: DW

اندازوں کے مطابق بنگلہ دیش کے تقریباﹰ پینتیس لاکھ افراد ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ ان میں سے پانچ فیصد سے بھی کم کسی مزدور یونین کا حصہ ہیں۔ دسمبر دو ہزار سولہ میں وہ احتجاج کے ذریعے تنخواہوں میں اضافے جیسا مطالبہ منوانے میں ناکام رہے۔

بنگلہ دیش میں ان کمزور مزدور یونینز کو طاقتور اور بااثر آجرین کا سامنا ہے۔ فیکٹری مالکان کا کہنا ہے کہ اگر اجرتوں میں اضافہ کر دیا گیا تو ان کے غیر ملکی پارٹنر بنگلہ دیش چھوڑ کر ایتھوپیا جیسے کسی دوسرے ملک چلے جائیں گے تاکہ وہاں سستی مصنوعات تیار کروا سکیں۔ 

بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے صدر صدیق الرحمان کے مطابق مزدوروں کے لیے کم از کم اجرت کی حد ابھی سن دو ہزار تیرہ میں مقرر کی گئی اور اس میں کسی بھی قسم کا اضافہ کم از کم پانچ برس کے بعد ہی ممکن ہو سکے گا۔