1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بوسنیا: مسلم مذہبی رہنما، شدت پسندی کے خلاف سرگرم

افسر اعوان20 جون 2016

سرایوو کے امام سلیمان مسجد میں آنے والے مسلمانوں میں کافی مقبول ہیں۔ وہ ان کے ساتھ کشادہ دلی سے پیش آتے ہیں اور انہیں شدت پسندی کی تمام شکلوں سے خبردار کرتے ہیں۔ ڈینیئل ہائنرش نے اُن سے بوسنیا میں ملاقات کی۔

https://p.dw.com/p/1JAAT
تصویر: DW/D. Heinrich

’جامعہ بیئلا‘ یا سفید مسجد سرایوو کے پرانے علاقے میں واقع ہے۔ اس مسجد میں سینکڑوں کی تعداد میں مرد و خواتین جمع ہیں۔ مرد مسجد میں بائیں جانب جب کہ خواتین دائیں جانب ہیں۔ امام سلیمان انہیں قرآنی تعلیمات سے آگاہ کر رہے ہیں اور ان کا یہ خطبہ مسجد کے صحن میں لگے اسپیکرز سے بھی سنا جا رہا ہے۔

امام سلیمان کہتے ہیں، ’’سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں لوگوں کو مکالمت کے لیے قریب لانا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مختلف معاشی گروپ کھلے ذہن کے ساتھ ایک دوسرے سے ملیں۔‘‘ 50 برس سے زائد عمر مگر بظاہر جوان نظر آنے والے امام سلیمان کے مطابق ہر شخص میں موجود ’اچھائی‘ ان کے لیے اہم ہے۔ ’’بنیادی طور پر اس بات سے کسی کا سروکار نہیں ہے کہ دوسرا شخص کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ معاملہ ایک فرد اور اس کے خدا کے درمیان ہے۔‘‘

بوسنیا اور ہرزیگوینا میں آباد زیادہ تر مسلمان معتدل اسلام کے پیروکار ہیں اور وہ توحید پرستانہ مذاہب کی مشترکہ بنیادوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ PEW ریسرچ سنٹر کے ایک جائزے کے مطابق بوسنیا اور ہرزگوینا کے 60 فیصد مسلمان مسیحیت اور اسلام کی مشترکہ بنیادوں کو تسلیم کرتے ہیں۔

ایک جائزے کے مطابق بوسنیا اور ہرزگوینا کے 60 فیصد مسلمان مسیحیت اور اسلام کی مشترکہ بنیادوں کو تسلیم کرتے ہیں
ایک جائزے کے مطابق بوسنیا اور ہرزگوینا کے 60 فیصد مسلمان مسیحیت اور اسلام کی مشترکہ بنیادوں کو تسلیم کرتے ہیں

ایک بوسنیائی مسلمان احمد علی بیسِک کے مطابق برداشت اور دوسروں کے طرز زندگی کا احترام پورے ملک میں واضح ہے، یہاں تک کہ رمضان کے دوران بھی۔ وہاں لوگ روزے رکھتے ہیں مگر وہاں دن میں بھی ریستوران اور بار کھلے رہتے ہیں۔ احمد علی بیسک کہتے ہیں کہ ان کے ملک کی کشادہ دلی بوسینیا کی تاریخ کا حصہ ہے: ’’ہم انیسویں صدی کے وسط سے ہی اسلامی روایات اور یورپی اقدار کو ساتھ ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ یہ غیر معمولی صورت حال، جسے عام طور پر جدیدیت کا نام دیا جاتا ہے، سلطنت عثمانیہ کے دور ہی میں شروع ہو چکی تھی۔‘‘

سفید مسجد کے امام سلیمان بھی اپنے خطبات میں لوگوں تک اسی رواداری کی تعلیم پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ تاریخی اصطلاحات کا استعمال نہیں کرتے بلکہ روزہ مرہ زندگی کی مثالوں اور عام الفاظ کے ذریعے یہ پیغام لوگوں تک منتقل کرتے ہیں۔ مسجد کے صحن میں اسمارٹ فون ہاتھ میں لیے نوجوان بھی ہیں اور تسبیح لیے بزرگ بھی مگر وہ قریب نصف گھنٹہ طویل ان کا خطاب انتہائی توجہ سے سن رہے ہیں۔ جس کے بعد وہ امام سلیمان کے ساتھ مصافحہ کریں گے اور ان سے نصیحت حاصل کریں گے۔