1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بونیر سے سکھوں کا انخلاء، بھارت کا احتجاج

فرید اللہ خان، پشاور2 مئی 2009

بونیر سے نقل مکانی کرنیوالے سکھوں کا کہنا ہے کہ وہ دیگر لوگوں کی طرح علاقہ میں بمباری اور شیلنگ کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور حالات میں بہتری آتے ہی وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے۔

https://p.dw.com/p/Hifv
نقل مکانی کرنیوالوں میں زیادہ ترسکھ مردان ، صوابی ، پشاور اور حسن ابدال منتقل ہوئے ہیںتصویر: AP

صوبہ سرحد کے ضلع بونیر میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن اب ایک نیا رخ اختیار کررہاہے۔ جہاں امریکہ کی جانب سے پاکستان پر عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن تیز کرنے کادبائو ہے وہاں اس آپریشن اورعسکریت پسندوں کے کاروائیوں کے نتیجے میں بے گھر ہونیوالے دیگر افرادکی طرح سکھ برادری کے علاقہ چھوڑنے پر ہمسایہ ملک ہندوستان نے بھی تشویش کااظہارکیاہے۔

ضلع بونیر میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کی وجہ سے سکھ برادری کے سینکڑوں خاندان نقل مکانی کرچکے ہے نقل مکانی کرنیوالوں میں زیادہ ترسکھ مردان ، صوابی ، پشاور اور حسن ابدال منتقل ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے اورکزئی ایجنسی سے 63 سکھ خاندانوں کو عسکریت پسندوں نے بے دخل کیا ہے جنہوں نے حسن ابدال میں رہائش اختیار کی ہے ہندوستان کا کہناہے کہ انہیں پاکستان میں سکھ برادری کی نقل مکانی اور انکے ساتھ عسکریت پسندوں کے برتائو پر تشویش ہے اور اس مسئلہ کو پاکستان میں ہندوستان کے ہائی کمشنر کے ذریعے اعلیٰ حکام کے ساتھ اٹھایاہے۔

Afghanistan Taliban
علاقے میں رہنے کے لیے طلبان کے سکھوں اور غیر مسلموں سے جزیہ طلب کرنے کے واقعات بھی سامنے آچکے ہیںتصویر: AP

معروف صحافی اور تجزیہ نگار بہروز خان کاکہناہے کہ اورکزی ا یجنسی اور بونیر سے نقل مکانی کرنیوالے سکھوں میں فرق ہے ملاکنڈ ڈویژن کے ڈھائی سالہ شورش کے دوران یہاں مقیم ہزاروں سکھوں کو نہ تو عسکریت پسندوں نے کچھ کہااورنہ کسی اور نے انکے خلاف کاروائی کی ہندوستان سکھوں کے مسئلہ کو سیاسی مقاصد کیلئے اٹھائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ علاقہ سے 60فیصد سے زائد لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں اور ان میں سکھ برادری بھی شامل ہے انکی دکانیں اورگھر اسی طرح پڑے ہیں کسی نے علاقہ میں انہیں مذہب کے نام پر نشانہ نہیں بنایا بونیر انکا علاقہ ہے اور امن ہوتے ہی یہ لوگ واپس آئیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں تک اورکزئی ایجنسی سے سکھوں کے انخلاء کا تعلق ہے تو وہاں کے عسکریت پسندوں نے فیروز خیل میں مقیم سکھوں کے 63خاندانوں پر جزیہ عائد کیاتھا اور بعدازاں انکے گھر لوٹ لیے جو اسلام ، قبائلی نظام اورپختون روایات کے خلاف ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ہندوستان اس وقت اس مسئلہ کو اٹھائے گا تو یہ وہ سکھ کمیونٹی کے حوالے سے اپنی نقطہ نظر سے بات کریگا ویسے انسانی حقوق کی حوالے سے دنیا کا کوئی بھی ملک اس مسئلہ کو اٹھاسکتا ہے لیکن یہ پاکستانی شہری ہیں اور پاکستان کو انکے حقوق کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیے۔

بہروز خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہندوستان اگر اس پر بات کریگا تو انسانی حقوق کے برعکس یہ صرف سیاسی بات ہوگی چونکہ یہ واقعہ پاکستا ن میں رونما ہوا ہے ہندوستان اس مسئلہ سے ضرور سیاسی فائدہ اٹھائے گا کیونکہ جب بھی ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی واقعہ ہوتاہے تو پاکستان اسے ضرور اٹھاتاہے یہ بھی عین ممکن ہے کہ ہندوستان وہاں رہنے والے سکھوں کی ہمدردی حاصل کرنے اور انہیں خوش کرنے کیلئے یہ مسئلہ اٹھائے۔

دوسری جانب دفترخارجہ کے ترجمان کا کہناہے کہ اورکزئی ایجنسی میں رہنے والے سکھ پاکستانی ہیں اور بھارت کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ پاکستان کااندرونی مسئلہ ہے جسے پاکستان ہی حل کریگا صوبہ سرحد اورملحقہ قبائلی علاقوں میں ہزاروں سکھ خاندان آباد ہے قبائلی علاقوں کے سکھ خاندان زیادہ تر پاکستان اورافغانستان کے درمیان تجارت سے وابستہ ہے صوبہ سرحدکے ضلع بونیر میں ڈھائی سے تین ہزار تک سکھ صدیوں سے مذہبی آزادی کے ساتھ یہاں رہائش پذیر ہیں۔

بونیر سے نقل مکانی کرنیوالے سکھوں کا کہنا ہے کہ وہ دیگر لوگوں کی طرح علاقہ میں بمباری اور شیلنگ کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور حالات میں بہتری آتے ہی وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے۔ بونیر کے مختلف علاقوں میں آپریشن کی وجہ سے 60سے 65فیصد لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔