1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنسی جرائم میں تقدس اور مرتبے کے پیمانے

15 جولائی 2021

کچھ عرصہ قبل بھائی نے چھوٹے بیٹے کو قرآن حفظ کرانے کی غرض سے قریبی قصبے کے معروف مدرسے میں داخل کرانے کا فیصلہ لیا۔ یہ جان کر دل کو ایک پریشانی لاحق ہو گئی لیکن یہ پریشانی بلاوجہ نہیں تھی، اس کے کچھ اسباب بھی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3wW3l
Bloggerin Sundas Rashid
تصویر: Privat

دینی مدارس میں بچوں کے لیے رہن سہن کے ناقص انتظامات، ان پر تشدد اور تسلسل  سے جنسی استحصال کے واقعات ایک ایسی حقیقت ہیں، جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ گو کہ اس کے کھلے اعتراف میں بعض بندگانِ خدا کو کچھ 'مصلحت‘ درپیش رہتی ہے۔ بہرحال، برادر کو اپنا فیصلہ بدلنے پر مائل کرنے کے واسطے فیصلے کے جملہ نقائص پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔ دیکھو! ابھی بچہ چھوٹا ہے، اس کا سب سے پہلا حق والدین کی توجہ، ان کا پیار اور بہن بھائیوں کی صحبت ہے۔ لہذا اس کمسنی میں اسے اس حق سے محروم نہ کریں۔ جانور کے بچے کو بھی اگر اس کے فطری ماحول سے نکال کر قید میں رکھا جائے اور بعد میں جنگل میں چھوڑ دیا جائے تو اپنی بقا کی جنگ کے لیے وہ پوری طرح تیار نہیں ہو گا۔ چھوٹے بچے کو اس کی پرورش کے لیے لازم رشتوں، اداروں اور ضرورتوں سے محروم کر کے ایک ایسی جگہ تک محدود کرنا، جہاں اس کی فطری صلاحیتیں کھل کر نمو نہ پا سکیں، جہاں وہ شرارت نہ کر سکے، سوال نہ اٹھا سکے، جہاں اس کا تجسس نہ پنپ سکے اور جہاں اس کے تجربات و مشاہدات کی دنیا انتہائی محدود ہو کر رہ جائے، کم سے کم الفاظ میں بھی ظلم ہے۔

جب وہ ٹس سے مس نہ ہوئے تو مزید عرض کی کہ دنیاوی علوم کی رسمی تعلیم سے چار پانچ سال تک مکمل طور پر قطع تعلقی بچے کے سیکھنے کی صلاحیت اور شخصیت پر بری طرح اثر انداز ہو گی۔ پھر ایسی عمر میں کہ جب بچہ جنسی مسائل سے متعلق نہ تو شعور رکھتا ہے اور نہ ہی اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اسے اجنبیوں کے حوالے کر دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟ نہ صرف یہ کہ اس قدر vulnerable  بچہ باآسانی جنسی استحصال کا شکار ہو سکتا ہے بلکہ کل جوان ہو کر خود ایک جنسی شکاری کا روپ دھار سکتا ہے۔ مگر اس vicious circle کے زیر اثر وہ بظاہر دین دار، متقی مگر حقیقتاﹰ انسانی و اخلاقی احساسات  سے بے بہرہ اور کھوکھلا شخص بن کر رہ جائے گا۔

 تمام تر دلائل کے باوجود بھی جب بھائی کو قائل نہ کر سکے تو تجویز پیش کی گئی کہ گاؤں کے کسی ایسے مدرسے میں داخل کروا دیا جائے، جو قریب بھی ہو اور بچے کو وہاں رات قیام نہ کرنا پڑے۔  مگر ہمارے پُرخلوص مشورے کو اتنی ہی اہمیت دی گئی جتنی کہ 'آدھی گواہی‘ کو دی جاتی ہے۔ بھائی صاحب ہمارے بھتیجے کو مدرسہ بھیج کر ہی دم لیے۔

کچھ مہینے گزرنے کے بعد بھائی بیٹے کو گھر واپس لے آئے اور اسے قریبی مدرسے میں داخل کروا دیا، جہاں وہ صبح سے لے کر شام تک حفظ کی کلاس لیتا ہے مگر اس دوران کھانا کھانے اور آرام کے لیے دو تین بار گھر آ سکتا ہے۔ اس بدلاو کی وجہ پوچھنے پر معلوم پڑا کہ ا یک تو بچہ بیمار رہنے لگا تھا اور دوسرا ایک دو دوستوں نے بھائی کو سمجھایا  کہ بچے کو 24 گھنٹوں کے لیے غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا عقل مندی نہیں۔ بہرحال کسی قدر تسلی ہوئی کہ چلوبرادر نے 'پوری گواہی‘ ملنے پر اپنے رویے میں لچک پیدا کر دی ہے۔

لگتا ایسا ہے کہ کورونا کی وبا کے کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں بچوں کے جنسی استحصال کی وبا بھی پھیل گئی ہے۔ در حقیقت یہ معاشرتی وبا پاکستان میں کئی عشروں سے پھل پھول رہی ہے، جو تدارک کی عملی کوششیں نہ ہونے کی وجہ سے اب اپنے نتائج ظاہر کر رہی ہے۔ 

حال ہی میں لاہور واقعے کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد ویڈیوز کا ایک سلسلہ ہی شروع ہو گیا ہے، جو تاحال جاری ہے۔ تب سے اب تک مدارس میں بچوں کے جنسی استحصال، علما کی مجرمانہ خاموشی اور حکومت کی جشم پوشی جیسے موضوعات نا صرف میڈیا بالکل عوامی سطح پر بھی زیر بحث آ رہے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا عوامی اضطراب کی یہ لہر حکومتی اداروں اور علمائے دین کو اپنی ماضی کی روش ترک کرنے پر مائل کر سکے گی۔

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ مدارس کو جنسی  جرائم کی آماجگاہ بننے سے روکنے اور بچوں کو ہر جگہ پر جنسی تشدد سے محفوظ رکھنے کے لیے حکومت کو موثر پالیسی ترتیب دینا ہو گی۔  دینی و علمی حلقوں کو مجرموں کو تحفظ اور وکٹمز کو زبان بندی پر مجبور کر دینے کا رویہ بدلنا ہو گا۔ مگر سیکس ایجوکیشن کے نام پر منہ سے آگ برسانے والے مذہبی و رجعتی عناصر کی جانب سے ایسی کسی بھی سنجیدہ کوشش کے آثار ناممکن نہ سہی تو موہوم ضرور دکھائی دیتے ہیں۔ انفرادی رویوں میں بدلاو کے لیے والدین کی تربیت کے لیے ایک منظم کوشش بہت ضروری ہو گئی ہے۔ ہم میں سے ہر وہ شخص جو جنسی جرائم سے متعلق شعور رکھتا ہے خود بحیثیت ماں، باپ، رشتہ دار یا دوست بچوں کی تعلیم و تربیت کے مندرجہ ذیل پہلوؤں پر نہ صرف خود خصوصی توجہ دے سکتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی قائل کر سکتا ہے۔

جنسی تشدد کے واقعات میں کمی کے لیے ہماری اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ بچوں میں اپنے جسم سے متعلق حدود کا تعین کرنا سکھایا جائے۔ اکثر اوقات بچہ اس بات کا ادراک نہیں رکھتا کہ کسی فرد کا مناسب یا نامناسب انداز میں چھونا یعنی کیا ہے اور نامناسب انداز میں چھونا کیوں غلط ہے؟ انہیں یہ تربیت دینا ضروری ہے کہ ان کے جسم کے پرائیویٹ حصے کون سے ہیں اور کون سے افراد کن صورتوں میں ان حصوں کو چھو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی کا بھی پرائیویٹ حصوں کو چھونا کیوں غیرمناسب فعل ہو گا۔ آگہی دی جائے گی تو ہی بچوں میں ایسی کسی بھی نامناسب حرکت کو شروع میں ہی شناخت کرنے کی صلاحیت پیدا کی جا سکے گی۔

ایسے مجرم کے لیے بچے کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانا اور بھی آسان ہو جاتا ہے، جب بچہ نہ صرف ایسے شخص پر اعتماد کرتا ہو، اسے قابل احترام بھی جانتا ہو۔ ایسے میں بچہ 'نہ‘ کہنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم بچے کو پڑھا چکے ہوتے ہیں کہ اپنے سے عمر، رشتے اور حیثیت میں بڑے شخص کو نہ کہنا بدتمیزی ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ اپنے تحفظ اور ایسے کسی بھی واقعے کے بعد اپنے والدین سے بات کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ گو ہر معاشرے میں چھوٹوں کو بڑوں کے احترام کی تربیت دی جاتی ہے مگر مشرقی خاندانی روایات میں یہ پہلو مبالغہ کی حد تک موجود رہا ہے بلکہ اسے روز مرہ زندگی میں بار بار re-inforce بھی کیا جاتا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ ادھر کسی محلے دار نے بچے کی شکایت کی، ادھر ماں یا باپ نے بچے کی بات سنے بغیر ہی اس کے کان پر دو دھر دیے۔ بچے کی عزت نفس تو مجروح ہوئی ہی مگر اس کا یہ خیال مزید مستحکم ہو گیا کہ غلطی پر ہونے یا نہ ہونے دونوں صورتوں میں ہی بڑے کی بات کو ہی قابل یقین جانا جائے گا۔

بچے اور بھی غیر محفوظ ہوجاتے ہیں، جب مجرم کو معاشرے میں ایک باعزت مقام حاصل ہو اور اسے واضح اختیار بھی حاصل ہو۔ استاد ایک رشتہ ہے، جہاں عموماﹰ ڈر، احترام اور اختیار موجود ہوتا ہے۔ بات نہ ماننے پر سزا کا ڈر اس پر اس قدرے حاوی رہتا ہے کہ وہ اپنے بچاو کی کوئی کوشش نہیں کر پاتا۔  بچوں میں اس احساس کو پروان چڑھایا جائے تو کوئی بھی شخص اپنی عمر، رشتے اور رتبے کی بنا پر قابل احترام تو ہے مگر کسی بھی صورت اسے یہ حق ہرگز حاصل نہیں کہ وہ اس کی تذلیل کرے، اسے نامناسب طور پر چھوئے اور نفسیاتی یا جسمانی طور پر کسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنائے۔

بالفرض کوئی بچہ جنسی نوعیت کے کسی بھی ناپسندید تجربے سے گزرتا ہے تو وہ بلا جھجک اپنے والدین سے اس بارے میں بات کر سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بچہ شرمندگی ، تذلیل یا انتقامی کارروائی کے خوف سے آزاد ہو اور پراعتماد ہو کہ اس کی بات پر یقین کیا جائے گا۔ لہذا وقتاﹰ فوقتاﹰ بچے کو بتایا جائے کہ کسی شخص کی موجودگی میں غیرمحفوظ محسوس کرنے یا جنسی حملے کی صورت میں وہ بلا خوف والدین سے بات کر سکتا ہے۔ اسے یہ یقین دہانی بھی کرائی جائے کہ مجرم خواہ کوئی بھی ہو اس کی بات کو سنجیدہ لیا جائے گا۔ یاد رہے کہ بعض اوقات جنسی تشدد کا شکار فرد ذہنی صدمے کی وجہ سے واقعے کی اہم معلومات یاد نہیں رکھ پاتے یا پھر تفصیل بتانے سے قاصر رہتے ہیں۔ ان کی بات میں ابہام یا تضاد پایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف اس کے مد مقابل ایک شخص ہے، جو ممکن ہے ماضی میں بھی بچوں کا جنسی استحصال کرتا رہا ہو اور جرم فاش ہونے پر اپنے ارد گرد کے لوگوں کو manipulate کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ لہذا بچے کی بات کو فوری طور پر جھوٹ کہہ کر جھٹک دینا یا کسی 'مصلحت‘ کے تحت بچے کو خاموش کروا دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق والدین کا بچے کی بات پر کان نہ دھرنا یا اسے جھوٹا کہہ کر خاموش کرا دینا بچے کو ٹراما سے دوچار کر سکتا ہے، جو اسے زندگی بھر کے لیے ذہنی طور مفلوج بھی کر سکتا ہے۔

گو ناکافی سہی مگر یہ وہ ضروری اقدامات ہیں، جو میں اور آپ اپنی انفرادی حیثیت میں بچوں کو جنسی تشدد سے محفوظ رکھنے کے لیے کر سکتے ہیں۔