1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمایشیا

بچوں کی نفسیاتی تربیت، ان باتوں کا خیال رکھیے!

رابعہ الرَباء
7 اپریل 2021

جوں جوں وقت اور زمانہ بدل رہے ہیں، توں توں بچوں کی تربیت کے رنگ ڈھنگ نئے تقاضے کر نے لگے ہیں۔ اس وجہ سے بچے اور والدین دونوں ہی اپنی اپنی جگہ کشمکش کا شکار ہیں۔

https://p.dw.com/p/3rfxS
Weltspiegel 02.02.2021 | Pakistan Peschawar | Schüler mit Maske
تصویر: Muhammad Sajjad/AP Photo/picture alliance

بچوں کی تربیت کے لیے پہلی درس گاہ ماں اور باپ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان دونوں کا ایک بات پہ متفق ہونا ضروری ہے اور بچوں کے سامنے سب سے پہلے تو ایک دوسرے کی عزت کرنا ضروری ہے، ایک دوسرے کی بات سننا ضروری ہے۔ بچہ سب سے زیادہ دیکھ کر سیکھ رہا ہوتا ہے۔ لہذا پہلے تو والدین اور ساتھ رہنے والوں کو، جیسے مشترکہ خاندانی نظام ہے، اپنے ہر عمل کے ساتھ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بچہ یہی سب کچھ مستقبل میں کرے گا، جو دیکھ رہا ہے۔ خواہ آپ اس کو کتنا بھی کسی بات سے کیوں نہ روک لیں، جو اس نے دیکھا ہے، وہ کرنا ناگزیر فطرت ہے۔ یوں بھی بچے کو، جس بات سے مسلسل روکا جا رہا ہوتا ہے، وہ اس کے لیے تجسس بن جاتی ہے اور وہ اپنے تجسس کی تسکین یا کھوج کے لیے اس عمل کو دہراتا ہے۔

بچوں کو خوف یا لالچ دے کر کام کرنے کی طرف آمادہ مت کریں ورنہ وہ ساری عمر خوف یا لالچ کے زیر اثر زندگی گزار دے گا، مزید دشواریوں کا شکار ہو جائے گا اور آپ کو بھی اس کا حصہ بنا لے گا۔ اس کو جو سیکھانا ہے، جو تربیت کرنی ہے، وہ یہ ہے کہ اسے جو کچھ کرنا ہے بحیثیت انسان کرنا ہی ہے اور انسان بھلائی کا کام کرتا ہے۔

اس پر اپنے کسی قسم کے نظریات مسلط مت کریں، اس کا زمانہ دوسرا ہے اور  آپ کا دوسرا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر زمانہ اپنی تہذیب ساتھ لاتا ہے اور ہمیں اسی کے مطابق تعلیم بھی دینی ہے اور تربیت بھی۔ تعلیم نے تو وقت کے ساتھ ساتھ کسی حد تک اپنے معیارات بدل لیے ہیں مگر تربیت ابھی ماضی کی پرستش میں مشغول ہے۔

تعلیم اور تربیت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ بچے کو اسکول اور ٹیوشن بھیج کر ہم اس کے تربیتی تقاضے پورے نہیں کر رہے بلکہ علمی تقاضے پورے کر رہے ہیں۔

علمی تقاضوں کی پہلی سیڑھی والدین، خاندان، دوست احباب، بچوں کے دوست، ان کے خاندان کے رویے اور اعمال ہیں، جو بچہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ کھیل کود، ملنے ملانے اور کھانے پینے کے دوران سیکھ رہا ہوتا ہے۔

جب بچہ بڑا ہو رہا ہوتا ہے تو ہم اسے ڈراتے ہیں، سو جاؤ، بلی آ جائے گی، جن آ جائے گا یا اس کو کسی چیز کا لالچ دیتے ہیں اور یوں اس کے ذہن میں کچھ کرنے کے لیے ڈرنا یا لالچ جگہ بنا لیتے ہیں۔ اس طرح بچے نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔

DW Urdu Blogerin Rabia Al raba
رابعہ الرَباء، بلاگرتصویر: privat

اس کا اعتماد اس کی اپنی ذات پہ بحال کرنا تربیت کا سب سے اہم نکتہ ہے۔ ذات پہ اعتبار تب آتا ہے، جب وہ اپنے کام آپ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ جوں جوں وہ بڑا ہونے لگے تو اس سے وہ کام، جو وہ کر سکتا ہے کروائیں تاکہ وہ خود مختار ہونا سیکھے اور یوں اس کا اپنی صلاحیتوں پہ اعتماد بڑھنے لگتا ہے۔ وہ جتنا جلد خود مختار اور پر اعتماد ہو گا، اتنا ہی جلد اور بہتر عملی زندگی میں شامل ہونے کے قابل ہو جائے گا۔

لیکن ہم اپنے بچوں سے ان کا اپنا کام کروانا بھی شاید چائلڈ لیبر سمجھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ خود اس کے سب کام کر کے دیں۔ اس طرح وہ عمر بھر یہی توقع کرتا رہتا ہے کہ اس کے کام دوسرے کریں۔ کچھ والدین توانہیں اپنی ذات کے گرد اتنا محو کر لیتے ہیں کہ اس کا اعتماد عمر بھر انسانوں سے اٹھ جاتا ہے۔

بچہ جب بڑا ہو رہا ہوتا ہے تو گھر میں چیزوں کو بکھیرنا اور غلطیاں کرنا ایک عام سی بات ہے مگر ہم اسے مار کر یا ڈانٹ کر منع کر دیتے ہیں۔ خوف سے وہ سہم تو جاتا ہے مگر غلطی کرنا اس کی جبلت ہے، موقع ملتے ہی وہ غلطیاں کرنے لگتا ہے۔ کسی کے گھر جا کر یا اسکول جا کر، تب ہمیں ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نتیجتاﹰ ہم اس پہ مزید سختی کرتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں سوچتےکہ وہ گھر میں غلطیاں نہیں کرے گا تو باہر کرے گا۔ کیونکہ اس نے عملی زندگی کو غلطیوں سے ہی سیکھنا ہے۔ اس کو گھر میں غلطی کرنے دیں اور اس کا نتیجہ جب سامنے آتا ہے، اول تو وہ اسی سے سیکھ جاتا ہے کہ اب اسے یہ کام نہیں کرنا۔ تب اگر آپ اس کو سمجھا دیں کہ دیکھا ایسا کرنے سے یہ ہو گیا تو وہ خود محتاط ہو جائے گا۔

بچے کو اجنبی جگہوں پہ لے کر جائیں، اجنبی لوگوں سے ملاقات کروائیں تاکہ اسے جگہ کے بدلنے اور نئے لوگوں سے مانوس ہونا اور انہیں قبول کرنا آئے۔

لوگوں اور خصوصا اجنبی اور نئے افراد کے سامنے اس کی رہنمائی کم سے کم کریں۔ ہم یہی سب سے زیادہ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو بتا سکیں کہ ہمارے بچے ہمارے کتنے کنٹرول میں ہیں۔ مگر مستقبل قریب اس کا پردہ فاش کر دیتا ہے۔ جونہی بچہ ذرا طاقت ور ہوتا ہے تو وہ کسی بھی صورت اس کنٹرول سے بغاوت کر دیتا ہے۔کیونکہ اس کی عزت نفس مجروع ہو رہی ہوتی ہے جب کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بچے کی عزت نفس ہوتی ہی نہیں ہے۔ بچے کو ممکن اور ضروری حد تک آزادی دیں کیونکہ سیکھنے کا عمل آزادی کا تقاضا کرتا ہے۔

بچے کا جسم کھیل کود یا اچھلنے کودنے کا تقاضا کرتا ہے، جو اس کی ذہنی و جسمانی نشوونما کے لئے بے حد ضروری ہے۔ اس کے ساتھ کھیلوں میں شمولیت کریں۔ اس کی یہ خواہش بھی ہوتی ہےکہ والدین اس کے کھیل کود کا حصہ بنیں۔

آج کے دور کی بات کی جائے تو اب کارٹون برائے کارٹون کا دور ختم ہو چکا ہے۔کارٹون کہانیوں میں سب رشتے ہوتے ہیں، جو بہت آئیڈیل صورت میں پیش کیے جاتے ہیں ۔اس لیے وہ اپنے والدین اور دوسرے رشتوں کو بھی اس آئیڈیل صورت میں دیکھنا چاہتا ہے، جب نہیں دیکھتا تو اس آئیڈیل کے قریب، جو بھی شخصیت لگتی ہے، اس کا جھکاو اس کی طرف ہو جاتا ہے۔ اس لیے اپنے بچے کے آئیڈیل کو کم از کم سمجھنے کی کوشش ضرور کریں۔ جب آپ بچے سے بات کریں گے، ڈائیلاگ کریں گے، اسے وقت دیں گے تو وہ اپنے تصور کی تصویر آپ کے سامنے خود بنا دے گا۔ لیکن اس سب کے لئے آپ کو وقتی طور پہ اس کے ذہنی معیار تک آنا ہو گا یعنی وقتی طور پہ بچہ بننا ہو گا۔

بچےمیں قوت برداشت پیدا کریں۔ جب ہم بات کر رہے ہوتے ہیں اور اچانک بچہ آ جائے تو ہم اپنی بات چھوڑ کر اس کی سننے لگتے ہیں۔ ہمیں چاہیے ہم اسے کہیں کہ پہلے ہم بات مکمل کر لیں تو آپ کیجیے گا۔ یوں اس میں تہذیب گفتگو پروان چڑھتی ہے اور قوت برداشت بھی پیدا ہوتی ہے۔

لڑکے اتنی سست روی سے بڑے ہوتے ہیں کہ بچپن کا عرصہ لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ لاڈ پیار حاصل کر لیتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو سماجی ہے لیکن طبعی لحاظ سے بھی یہ بات اہم ہے کہ لڑکیاں جلد بڑی لگنے کی وجہ سے اچانک کم توجہی کا شکار ہو کر چڑچڑی ہونے لگتی ہیں۔ ان کے بچپن کا چڑچڑاپن توجہ کا طلب گار ہے۔

جب بچے ذرا چلنے اور بولنے کے قابل ہوتے ہیں تو چڑچڑے ہو کر ہاتھ اٹھانا ایک عام رویہ ہے، جس کو ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ مارتا / مارتی ہے۔

اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ مار رہے ہیں۔ وہ چونکہ ابھی روانی سے بول نہیں سکتے، تیزی سے بھاگ نہیں سکتے، گویا اپنی لسانی و جسمانی حفاظت اور دفاع نہیں کر پا رہے ہوتے تو جب وہ کسی بات سے زچ ہوتے ہیں تو یہ دفاعی رد عمل اختیار کرتے ہیں، تب ان کو توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس موقع پہ آپ بھی اسے فوری تھپڑ مار دیں گے تو ممکن ہے آپ کے اس عمل سے وہ تشدد سیکھ لے کہ جب اس کی مرضی کے خلاف کوئی بات ہو تو وہ بھی مارنا شروع کر دے۔ کیونکہ آپ نے اپنی مرضی کے خلاف کا رد عمل تشدد دکھایا ہے۔ اس لیے ان نازک مراحل سے بہت نزاکت سے گزرنا پڑتا ہے۔

سب بچے ایک جیسی توجہ کے طالب و مستحق ہوتے ہیں۔ بڑے بچے کو مسلسل بڑا اور چھوٹے کو مسلسل چھوٹاکہہ کر ان کی ذات کی نفی مت کیجیے، دونوں کو جینے کا برابر کا حق ہے، ان سے چند سال بڑا ہونے کی وجہ سے ان کا بچپن مت چھینیں۔
ماں کی گود کو تربیت کی پہلی درس گاہ کہا جاتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ ہمارے مشرقی معاشروں میں بیٹی کی تربیت کرتے وقت ہم سسرال کا نقشہ خود ہی اس کے ذہن میں بنا دیتے ہیں اور اس تربیت گاہ سے میکے و سسرال سب کو شکایات ہوتی ہیں۔ ''سسرال جاو گی تو پتا لگے گا، تمہیں کیا پتا سسرال میں کیسے کیسے مصائب سہنا پڑتے ہیں، میں نے کیسے گزارا کیا ہے یہاں ؟‘‘یہ وہ روایتی جملے ہیں، جن کو سسرال اور شادی کی تربیت کے لیے ہر لڑکی کو تو اپنی اوائل عمری سے ہی سسننے پڑتے ہیں۔

نفسیاتی اعتبار سے یہ خوف کے سائے تلے ایک مجبور اور نفسیاتی بیمار زندگی گزارنے کی تیاری کا عمل ہے۔ لہذا یہاں سے ایک نفسیاتی بیمار سماج کا آغاز ہو تا ہے اور پھر یہ لڑکی ایک ڈری سہمی نسل کی سر براہ بن جاتی ہے۔ گویا شادی سے پہلے ہی بلکہ اس کی بلوغت سے پہلے ہی اس کو سسرال اور دوزخ کا منظر نامہ ایک جیسا بتایا جاتا ہے۔ لہذا شادی کے فوری بعد وہ بنا سوچے سمجھے دوزخ کی آگ سے بچاو کے اقدامات کرنے لگتی ہے۔ اتنے میں وہ بچے کی ماں بن جاتی ہے۔ اب اس کے ڈر خوف والی نفسیات کا ایک چھپا ہوا پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بھی اس آگ سے بچانے کی کوششوں میں اپنا حال خراب کر لیتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ بچوں کا ناطہ ننیھال سے قریب ہو۔ یوں چاند ماموں بن جاتا ہے اور شاید چاندنی خالہ۔ ایسا مت کریں بلکہ بچے کو سسرال اور شوہر کا اچھا نقشہ دیں، خواب بھی مت دیں لیکن دوزخ بھی نہیں۔

آپ نے اگر بچی کی تربیت اچھی کی ہے تو اسے اپنےگھر کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے دیں۔ نئی جگہ، نیا ماحول، نئے لوگوں سے مانوس ہوتے کچھ وقت لگتا ہے۔ اگر یہ تربیت کا حصہ رہا ہو تو وہ جلد گھل مل کر اس ماحول کو قبول کرنے لگتی ہے۔ اس طرح ایک مطمئن لڑکی ایک تربیت یافتہ نسل پیدا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔