1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بچپن گزارے بغیر ہی بڑے ہو جانے والے مہاجر بچے‘

عاطف بلوچ، روئٹرز
29 دسمبر 2016

بلغراد کے ایک چائلڈ کیئر سینٹر میں، ایک کرسمس پیڑ کے تصویر پر خواہشوں پر مبنی کئی رنگوں کی اسٹیکرز چپکے ہیں، جن پر نو عمر مہاجرین نے نیے سال کے لیے اپنی اپنی ’خواہشات‘ اور ’اہداف‘ لکھ رکھا ہے۔

https://p.dw.com/p/2V0jS
Afghanistan Migration Flüchtlinge Landweg nach Europa
تصویر: privat

افغانستان سے تعلق رکھنے والا ایک 16 سالہ مہاجر سمیر کی خواہش انگریزی زبان میں درج ہے، اور اس کے گرد ایک سرخ دائرہ بھی بنا ہوا ہے۔

وہاں لکھا ہے، ’’میرے والدین افغانستان میں ہیں، مگر مجھے لندن جانا ہے۔ میں انگریزی بول سکتا ہوں اور لندن میرے لیے بہتر ہے۔‘‘

سمیر مہاجرین کے اس گروپ کا حصہ ہے، جنہیں حکومت کے زیرنگرانی چلنے والے ایک مہاجر مرکز میں رکھا گیا ہے۔ یہاں وہ نوجوان مہاجرین موجود ہیں، جنہیں دارالحکومت بلغراد کی گلیوں میں پھرتے دیکھا گیا اور پھر یہاں پہنچا دیا گیا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کے مطابق سربیا میں موجود مہاجرین میں سے چالیس فیصد نابالغ ہیں۔ یہ وہ مہاجرین ہیں، جو سربیا کے ہم سایہ یورپی یونین کے رکن ممالک کروشیا اور ہنگری کی جانب سے سرحدیں بند کر دینے کی وجہ سے سربیا میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

امدادی تنظیمیں ان نابالغ مہاجرین کے آبائی اوطان یا یورپ تک کے اس سفر میں راستے میں موجود ان کے اہل خانہ کی تلاش کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ انہیں ان تک پہنچایا جا سکے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بعض نوجوان تارکین وطن پکڑے جانے سے بچنے کے لیے چھوٹے چھوٹے گروپوں میں سفر کرتے ہیں اور اسی لیے وہ امدادی اداروں سے مدد حاصل کرنے سے بھی اجتناب برتتے ہیں۔ ان نابالغ تارکین وطن کا خیال ہے کہ یورپی یونین میں پہنچ کر وہ آسانی سے کوئی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور یہی وجہ ہے کہ وہ پارکوں اور دیگر مقامات پر سخت سردی کا مقابلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

Afghanistan Migration Flüchtlinge Landweg nach Europa
سربیا میں موجود نوجوان مہاجرینتصویر: privat

سربیا میں سیو دا چلڈرن نامی امدادی ادارے سے وابستہ تاتیانا رستِچ کا کہنا ہے، ان نوعمر مہاجروں کی حالت انتہائی بری ہے۔ ’اسے برا کہنا بھی اس حالت کی ترجمانی نہیں کر سکتا۔‘‘

اسی مہاجر مرکز میں موجود 15 سالہ نعمان کا تعلق بھی افغانستان سے ہے۔ نعمان نے بتایا کہ اس نے دو مرتبہ سرحد عبور کر کے کروشیا میں داخلے کی کوشش کی، تاہم پولیس نے اسے پکڑ کر دوبارہ واپس سربیا بھیج دیا۔ نو ماہ قبل افغانستان سے نکلنے والے نعمان کا کہنا ہے، ’’افغانستان میں لوگ لڑ رہی ہیں اور ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں، اس لیے میں نے اپنا ملک چھوڑا۔‘‘

نعمان کروشیا کے ذریعے اٹلی پہنچنا چاہتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال کے مطابق افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے بچوں کو دیگر بچوں کے مقابلے میں ہرصورت میں کامیاب ہونے کے لیے شدید دباؤ کا سامنا ہوتا ہے۔ سربیا میں یونیسف سے وابستہ مائیکل سینٹ لو کے مطابق، ’’ایک بچے کو جیسے ایک مشن پر بھیجا جاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ اگر وہ ناکام ہوا، تو پورا خاندان ناکام ہو جائے گا۔ ایسے بچوں پر دباؤ غیرمعمولی ہوتا ہے۔ یہ وہ بچے ہیں، جو بچن گزارے بغیر ہی بڑے ہو گئے۔‘‘